Book Name:Ala Hazrat Aur Ilm-e-Hadees

آئے تھے؟ کیا کام تھا؟وغیرہ یُوں اُن سے سُوال کئے تو انہوں نے بتایا : فُلاں تاریخ کو ہم کشتی میں سُوار تھے ،  اچانک تیز ہوا چلنے لگی ، جس سے دریا کی لہروں میں تیزی آئی ، ہماری کشتی ہچکولے لینے لگی ، قریب تھا کہ کشتی اُلٹ جاتی اور ہم ڈُوب کر ہلاک ہو جاتے ،  اسی وقت ہم نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دئیے ،  اللہ پاک کی بارگاہ میں اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے وسیلے سے دُعا کی : یااللہ پاک! اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا صَدقہ ہمیں طُوفان سے نجات عطا فرما۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے مَنّت بھی مانی۔

بَس دُعا مانگنے کی دیر تھی ،  ہم پر کرم ہو گیا ، اچانک ایک شخص نمودار ہوا ، اُس نے کشتی کو پکڑا اَور کھینچ کر کنارے پر پہنچا دیا۔ الحمد للہ! اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے وسیلے سے اللہ پاک نے ہمیں ڈُوبنے سے بچا لیا۔ وہ جو ہم نے مَنّت مانی تھی ، آج وہی مَنّت پُوری کرنے کے لئے حاضِر ہوئے تھے۔ ([1])  

تیرا اُونچا مرتبہ ہے اے امام احمد رضا             مصطفےٰ کی تُو عطا ہے اے امام احمد رضا

کیوں کریں نہ ذِکْر تیرا حشر تک پیارے بھلا؟     تُو تَو رحمت کی رِضا ہے اے امام احمد رضا

سُنِّیوں کو خوف کیونکر ہو بھلا مَنْجدھار سے          جبکہ تُو ہی ناخُدا ہے اے امام احمد رضا

وضاحت : مَنْجدھار یعنی دریا کا درمیان جہاں پانی بہت تیز اور گہرا ہوتا ہے اور ناخُدا کا معنی ہے : کشتی چلانے والا۔ شعر کا مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے پیارے اِمام ، اِمام احمد رضان خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ ! ہم عاشِقانِ رسول کو دریا میں ڈُوب جانے کا خطرہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ ہماری کشتی کی نگہبانی آپ جیسے عَظِیْمُ الشَّان راہنما فرما رہے ہیں۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد


 

 



[1]...حیاتِ اعلیٰ حضرت ، جلد : 3 ، صفحہ : 255۔