Book Name:Baap Ki Azmat o Shan

نے فرمایا: اپنے والد کو لے آؤ۔ والد کو لے کر آئے، تو نبیِّ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: تمہارا بیٹا کہتا ہے کہ تم اس کا مال لینا چاہتے ہو؟اُس نے عرض  کی: حضور! اِس سے یہ بھی تو پوچھیں کہ مال لے کر کیا کر تا ہوں؟اِس سے پیسے مانگ کر اُن پیسوں کا  کیا کرتا ہوں؟ اپنے  عزیزو اقارب کی مہمان نوازی کرتا ہوں اور اپنے بال بچوں کی ضَروریات پر خرچ کرتا ہوں۔ ابھی گفتگو جاری تھی  کہ اتنے میں جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے اور  کہا:حضور! اِس والد نے دِل ہی دِل میں کچھ اَشعار ترتیب دیئے ہیں،ابھی تک وہ اَشعار  اِس کی اپنی زبان پر بھی نہیں آئے، حضور! آپ اسے کہیں کہ وہ اَشعار سنائے۔ نبیِّ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے اِرشاد فرمایاکہ تم نے کچھ اَشعار سوچے  ہوئے ہیں جو ابھی تک  تمہاری  زبان سے   نکلے نہیں  ہیں، اِس  پر اُس نے کہا : اللہ پاک ہمیشہ آپ کے معجزات کے ذَریعے ہمارے دِلی یقین  ا ور بصیرت میں اِضافہ فرماتا رہتا ہے۔ اب اس والد نے نبیِّ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم   کو وہ اَشعار سنائے جن کا اُردو ترجمہ  یہ ہے:”میں نے تجھے غِذا پہنچائی ، جب  سے تو پیدا ہوا تیرا بار اُٹھایا، جب تو ننھا تھا میر ی کمائی سے بار بار سیراب کیا گیا، جب کوئی بیماری  غم بن کر تجھ پر اُترتی تو میں تیری بیماری کی وجہ سے رات بھر جاگتا رہتا، میرا  دِل تیرے مَرنے سے ڈرتا حالانکہ مجھے خوب معلوم تھا کہ موت یقینی ہے اور سب پر مسلط کر  دی گئی ہے، میری آنکھیں یوں بہتیں کہ گویا وہ مَرض جو رات کو تجھے ہوا  تھا نہ کہ مجھے،ایسا ہوتا کہ  مجھے ہوا ہے یعنی بیمار  تو ہوتا تھا تکلیف مجھے ہوتی تھی،  میں بے چین ہو جاتا، میں نے  تجھے یوں پالا جب تو پَر وان چڑھا اور اس حَد  تک پہنچا کہ مجھے اُمید لگی کہ اب تو میرے کام آئے گا  تو تو نے میرا    بدلہ سختی و بَدزبانی سے دیا، اے کاش! جب تو نے  والد ہونے کے حق کا لحاظ نہ  کیا تو ایسا ہی سلوک کر  لیتا جیسا ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے ساتھ کرتا