Book Name:Baap Ki Azmat o Shan

ڈبل دہاڑی لگاتا ہے تو کبھی کسی سے ادھار مانگتا ہے، کبھی کسی کے در پر جاتا ہے تو کبھی کسی کے دروازے پر دستک دیتا ہے، صرف اس لیے کہ میری اولاد خوش رہے، میرے گھر والے پریشان نہ ہوں، باپ خود آگ کے انگاروں پر چلتا ہے  مگر  اپنے بچوں پر کسی قسم کی  آنچ نہیں آنے دیتا۔

والدین کی خدمت کرنے والے خوش نصیب ہوتے  ہیں

پھر زندگی ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے کہ جب بچہ جوان ہوجاتا ہے اور والد بوڑھا ہوجاتا ہے،پہلے باپ بچے کی انگلی پکڑ کر اس کو چلاتا تھا اب زندگی کی اس دہلیز پر باپ اپنے نوجوان بچے کے ہاتھ اور اس کے سہارے کا آرزو مند ہوتا ہے، پہلے باپ بچے کو سنبھالتا تھا، اس کی خدمت کرتا تھا، اس کو اٹھا تھا، اس کو بٹھاتا تھا، اس کو چلاتا تھا، کام نہ ہونے کے باوجود صرف بچے کا دل بہلانے کے لیے بازار کے چکر کاٹتا تھا، اب وقت کا دھارا بدل چکا ہوتا ہے ، اب بچے کی باری ہوتی  ہے کہ وہ  والد کی خدمت کرے۔ 

یاد  رکھیں!اگر ہم ساری زندگی بھی ماں باپ کی خدمت کریں  تب بھی ان کا اِحسان  اور  بدلہ نہیں اُتار سکتے  کیونکہ انہوں نے اُس وقت ہماری خدمت کی جب  ہمیں چلنا نہیں آتا تھا،کھانا کھانا نہیں آتا تھا، ہم بے لباس  اور  کمزور تھے، انہوں نے ہمت کی اور ہمیں پال کر ایک تناور دَرخت بنایا۔ اب جب ان کی خدمت کی باری ہے تو ہمیں سعادت سمجھ کر ان کی خدمت کرنی چاہیے۔ خوش نصیب ہے  وہ اَولاد  جس کو ماں باپ کی خدمت کا موقع ملتا ہے، ورنہ کئی ماں باپ تو  ایسے  ہوتے ہیں وہ  خدمت کا موقع ہی نہیں دیتے، ہماری خدمت کرتے کرتے دُنیا سے چلے جاتے ہیں۔بندہ کہتا ہے مجھے تو Chance   ( موقع) ہی نہیں ملا  ،