Book Name:Baap Ki Azmat o Shan

مانگا ہمارے والد نے پورا  کیا ،کبھی ہم نے  سوچا کہ  ہمارے  والد نے اپنے لیے کب کیا خریدا؟ کبھی کہا ہو کہ بیٹا آج یہ جوتے بڑے پسند  آئے ہیں  تو میں اپنے لیے  لایا ہوں، اَرے نہیں نہیں،بلکہ باپ کی زبان پر ہمیشہ یہی رہا کہ  میں اپنے بیٹے کے لیے لایا ہوں،اپنی بیٹی کے لیے لایا ہوں،اپنی بیوی کے لیے لایا ہوں۔

 ماں باپ کمال کی ہستیاں ہیں،یہ اپنے لیے نہیں ،اپنے بچوں کے لیے جیتے ہیں اور جب بچہ بڑا ہو کر ماں باپ کے ساتھ بے اَدبی اور بَدسلوکی کے ساتھ پیش آتا ہے،دِل آزار جملے کہتا ہے  تواِس سے ماں باپ  کا دِل کتنا دُکھتا  ہو گا؟  کتابوں میں  باپ کا اَدب یہاں تک لکھا ہوا ہے کہ” بیٹا باپ کے سامنے ایسے  ہونا چاہیے جیسے غلام، آقا کے سامنے ہوتا ہے۔ ([1]) باپ  جب بیٹے  کو کوئی حکم دے تو بیٹا  لَبَّیْک کہے، یہ والد کا  بیٹے پر حق اور اَدب ہے۔آج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ بیٹا، باپ بنا ہوتا ہے  اور باپ غلام بنا ہوتا ہے،اب باپ کہہ رہا ہوتا ہے کہ بیٹا تھوڑے پیسے چاہئیں ، بیٹا اِنکار کر رہا ہوتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں یا باپ کہتا ہےکہ بیٹا اِدھر آؤ  ذرا  سا کام ہے تو بیٹا جواب دیتا ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔

باپ کو ویرانے میں چھوڑ کر آنے والا بدنصیب بیٹا

حدیثِ پاک میں ہے: سب گناہوں کی سزا اللہ پاک چاہے تو قِیامت کے لیے اُٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دُنیا میں دیتا ہے۔([2])ماں باپ کی نافرمانی  کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی اپنی اَولاد اُس کی نافرمانی کرتی ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک


 

 



[1]…… تفسیر در منثور، پ۱۵، بنیٓ اسرآءیل، تحت الآیة: ۲۴، ۵/۲۵۹۔

[2]……       مستدرک،کتاب البر  والصلة،باب کل الذنوب  یوخر اللہ...الخ،۵/۲۱۷، حدیث:۷۳۴۵۔