Book Name:Baap Ki Azmat o Shan

آخر وقت تک والد ہی ہمیں کھلاتا رہا ،والد ہی ہمارے اوپر مہربانی کر تا رہا، ہماری ماں ہی ہم پر  مہربانی کرتی رہی، اَرے ہمیں تو موقع ہی نہیں دیا کہ ہم ان  کی کچھ خدمت کر سکتے۔

یقیناً وہ بہت بڑا بَدنصیب  ہے جس کو والد یا والدہ کی خدمت کا موقع ملا اور وہ  یہ کہے کہ میں اِس  بوڑھے یا بوڑھی کی وجہ سے پریشان ہوگیا ہوں۔ اتنے پیسے ماں باپ پر خرچ کروں؟ تُف ہے ایسی  اَولاد پر  جو اپنے والدین کی خدمت کرنے  کو بوجھ سمجھتی ہے۔خُدا کی قسم !  یہ   ہمارے پیسوں کا نصیب ہے کہ وہ والدین پر خرچ ہوجائیں کیونکہ ساری زندگی تو انہوں نے ہی خرچ کیا نا ، جو کچھ دیا انہوں نے ہی دیا۔ہم جو کچھ ہیں اور ہمیں جو عزت ملی، شہرت ملی اور  دولت ملی یہ سب  ماں باپ کا صَدقہ ہے اور اِس میں والد کا بہت بڑا کِردار ہے اور ہماری حالت یہ ہوتی ہے کہ ہم   بعض اوقات والد کا شکریہ بھی  ادا نہیں کرتے۔ میری ماں مجھے کھلاتی ہے ، میری ماں  مجھے پلاتی ہے ، میری ماں مجھے سینے سے  لگاتی ہے، میری ماں مجھے ہر چیز لا کر دیتی ہے،  تو ذرا سوچئے تو سہی کہ  ماں کو پیسے کون دیتا ہے؟ کما کر کون لا رہا ہوتا ہے؟ والد  پورے گھر کا پلر ہوتا ہے مگر کوئی اس کا شکریہ ادا  نہیں کر  رہا ہوتا اور  اُس کی  اِس تکلیف کو سمجھ  نہیں رہا ہوتا۔ والد  پورے گھر کا محسن اور  پورے گھر کے لیے سایہ دار دَرخت ہوتا ہے  جو بے چارہ محنت کر  رہا  ہوتا ہے، ہمیں سایہ دے رہا ہوتا ہے، ہمیں نواز   رہا ہوتا ہے، ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ  ہمارے  والد کا ہے، نبیِّ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے مُبارک دور کا  ایک نہایت ہی  پُر دَرد  واقعہ مُلاحظہ کیجیے:

دُکھیارے باپ کی کہانی اسی کی زبانی

پیارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں ایک بیٹا اپنے باپ کی شکایت لے کر حاضر ہوا  کہ حضور! میرا والد میرا  مال لینا چاہتا ہے۔نبیِّ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم