Book Name:Hasad ke Nuqsanat
یہ بڑی سمجھنے کی بات ہے، یہ جو ہماری جان ہے نا، نتیجے میں اِس کی 2ہی صُورتیں ہیں؛ یا تو ہم جنّت میں جائیں گے، یا مَعَاذَ اللہ ! جہنّم کے حقدار ہو جائیں گے* کلمہ پڑھ لیا، اِیمان قُبول کر لیا، اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم ! جنّت نصیب ہو گی*اِیمان قبول نہ کیا، اَنجام جہنّم ہے۔ گویا ہم اپنی جان کو بیچتے ہیں، جنّت کے بدلے یا جہنّم کے بدلے۔
تو اللہ پاک نے فرمایا: وہ کتنی بُری چیز ہے، جس کے بدلے بنی اسرائیل نے اپنی جانیں بیچ دی ہیں، وہ کیا ہے؟ فرمایا:
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ
(پارہ:1، سورۂ بقرۃ:90)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:کہ اللہ نے جو نازِل فرمایا ہے، اُس کا اِنکار کر رہے ہیں۔
یعنی اُنہوں نے کفر اِخْتیار کیا اور اپنی جان جہنّم کے بدلے بیچ دی۔ کیوں...؟ وجہ کیا بنی؟ فرمایا:
اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ
(پارہ:1، سورۂ بقرۃ:90)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اس حَسَد کی وجہ سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے، وحی نازِ ل فرماتا ہے ۔
بنی اسرائیل جو ہیں، یہ جانتے تھے کہ نبئ آخرُ الزّماں تشریف لائیں گے، آخری نبی کے فضائِل اور شانیں بھی اُنہیں مَعْلُوم تھیں ، یہ چاہتے تھے کہ جیسے پہلے سینکڑوں اَنبیائے کرام علیہم السَّلام بنی اسرائیل ہی میں تشریف لائے، یُونہی آخری نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم جو ہیں، اُن کا تَعلُّق بھی بنی اِسْرائیل ہی سے ہو، وہ ہماری ہی نَسْل سے ہوں، لیکن اللہ پاک نے آخری نبی بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل سے بھیج دئیے! آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ