انقلابی کارنامے
غوثِ پاک اور احیاءِ دین
* مولانا منعم عطاری مدنی
ماہنامہ نومبر 2021
نام اور القاب کی کثرت کسی کے کثیرُ الصِّفات ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ حضور سیدی غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ بھی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کی ہمہ جہت شخصیت کو کئی القابات دیئے گئےہیں۔ غوثِ صمدانی ، محبوبِ سبحانی ، قندیلِ نورانی ، شہبازِ لامکانی ، غوثِ اعظم ، غوثُ الاِنْسِ وَالْجَان ، مُحْیُ الْمِلَّۃِ وَالدِّیْنِ وَالْاِیمان جیسے عظیمُ الشّان القاب آپ ہی کی شخصیت کے لئے بولے جاتے ہیں۔ آپ کے القابات میں سے ایک مُحْیُ الدِّیْنِ بھی ہے جس کے معنیٰ دین کو زندہ کرنے والا ، دین کو جِلا بخشنے والا ، دین پھیلانے والا۔ یہ لقب اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے بڑی وسعت رکھتا ہے۔ غوث ِ پاک نے دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج میں جو کردار ادا کیا وہ اپنی مثال آپ ہےآپ نے کئی طریقوں اور جہتوں سے احیاءِ دین میں کردار ادا کیا ہے ، آئیے! ان میں سے بعض جہات سے متعلق جانتے ہیں :
کردار کے ذریعے احیاءِ دین :
غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ صِدْق و سچّائی کے پیکر ، انتہائی ستھرے کردار کے مالک اور غریب پَروَر شخصیت تھے۔ آپ نے اپنی عُمر کے کسی حِصّے میں بھی جُھوٹ کا سہارا نہ لیا ، بچپن میں ڈاکو لُوٹنے آئے تو انہیں بھی سچ بتایا کہ میرے پاس چالیس دِینارہیں۔ اور غریب پروری ایسی تھی کہ ایک مرتبہ ایک غریب بندے کے پاس کرائے کے پیسے نہ تھے تو مَلّاح نے اسے کشتی میں نہ بٹھایا ، آپ کو معلوم ہوا تو اسے تیس دِینار بھیج کر فرمایا : آئندہ کسی غریب کو دریا عبور کرانے پر انکار نہ کرنا۔ [1]
افکار کے ذریعے احیاءِ دین :
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ طویل عرصے تک اپنے ملفوظات و افکار کے ذریعے لوگوں کو گمراہی سے بچاتے رہے ، آپ کی مَجلس وَعظ ونصیحت کا خزینہ اور گمراہوں کے لئے ہدایت کا زِینہ تھی۔ آپ کی مَحافل میں زِندگی کے کثیر شُعْبوں سےتَعَلُّق رکھنے والے اَفْراد شریک ہوتے ، عُلَما و فُقَہا سب جمع ہوتے ، آپ کی مجْلسِ وَعظ کا یہ عالَم تھا کہ بیک وَقْت چار چار سو اَفْراد قلم ودوات لے کر حاضر ہوتے اور آپ کے ملفوظات تحریر کرتےجبکہ 40 سال مخلوقِ خُدا میں وَعظ و نصیحت کے مدنی پُھول لُٹائے۔ [2]
کرامات کے ذریعے احیاءِ دین :
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی کرامات حَدِّ تواتُر تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس پر عُلَمَا کا اِتّفاق ہے کہ جتنی کرامات آپ رحمۃُ اللہِ علیہ سے ظاہر ہوئیں ہیں آپ کےعلاوہ کسی بھی صاحِبِ وِلَایَت سے ظُہُوْر میں نہیں آئیں۔ [3]
بیانات اور و عظ و نصیحت کے ذریعے احیاء ِ دین :
آپ نے وعظ و تبلیغ کے ذریعے دِینِ اسلام کے لئے بے شمار خدمات سرانجام دِیں ، آپ کا کوئی بیان ایسا نہیں جس میں لوگ اسلام قبول نہ کرتے ہوں اور چور ، ڈاکو ، فاسق ، فاجر آپ کے ہاتھ پر توبہ نہ کرتے ہوں۔ [4] آپ ہفتے میں 3 دن بیان کرتے ، جس میں بے شمار لوگ اور عُلَما و صُلَحا حضرات تشریف لاتے ، آپ کے وعظ اور نصیحت کو سننے کے لئے آنےوالوں کی تعداد کے بارے میں منقول ہے کہ بِالعموم ستّر ہزار سے زائد لوگ آپ کے بیان میں شریک ہوا کرتے تھے ، جن میں عراق کے عُلَما و فُقَہا ، مشائخ اور صُوفیائے کرام بھی ہوتے تھے۔[5]
تدریس کے ذریعے احیاءِ دین :
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ 13 علوم پڑھایا کرتےتھے ، آپ کےمدرسہ میں لوگ آپ سے تفسیر ، حدیث ، فِقْہ اور علمُ الکلام وغیرہ پڑھتے تھے ، دوپہر سے پہلے لوگوں کوتفسیر ، حدیث ، فِقْہ ، کلام ، اُصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد آپ تجوید و قرأت کے ساتھ قرآنِ کریم پڑھایا کرتے تھے ۔ [6]
تصانیف کے ذریعے احیاءِ دین :
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے دینِ اسلام کی خدمت اور امتِ مُسْلمہ کی راہنمائی کے لئے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں ، علامہ علاؤالدین بغدادی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے رسالہ تذکرہ قادریہ میں غوثِ اعظم کی 7کتابوں کے نام تحریر فرمانے کے بعد فرماتے ہیں کہ معتبر روایات سے معلوم ہوا کہ آپ کی تصنیف کرد ہ کُتب کی تعداد 69ہے۔ [7]
فتویٰ نویسی کےذریعے احیاءِ دین :
فتویٰ نویسی میں آپ کو وہ کمال حاصل تھا کہ اُس دور کے بڑے بڑے عُلما ، فقہا اور مفتیانِ کرام بھی آپ کے لَاجواب فتووں سے حیران رہ جاتے تھے۔ اِنتہائی مشکل مسائل کا نہایت آسان اور عُمدہ جواب دیتے ، آپ نے کئی سالوں تک درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں دین کی خدمت سرانجام دی ، اس دوران جب آپ کے فتاویٰ علمائے عراق کے پاس لائے جاتے تو وه آپ کے جواب پر حيرت زدہ رہ جاتے۔
اللہ کریم ، غوثِ اعظم کے صدقے ہمیں بھی دینِ اسلام کی خوب خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ سیرتِ مصطفےٰ ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] اخبارالاخیار ، ص18
[2] اخبار الاخیار ، ص9 تا 12
[3] نزہۃ الخاطرالفاتر ، ص23
[4] قلائد الجواہر ، ص18
[5] قلائد الجواہر ، ص18 ملخصاً
[6] بہجۃالاسرار ، ص225 ملخصاً
[7] سیرتِ غوث اعظم ، ص 61ملتقطاً
Comments