انقلابی کارنامے
ڈھائی سال میں عوامی خوشحالی کا راز (دوسری اور آخری قسط)
*مولانااسعدخان عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء
ظالم و جابر حکام و عمال کی معزولی:حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہنےمنصبِ خلافت سنبھالتے ہی اپنے ماتحت تمام حُکام و امراء پر نظر ڈالی اور ان میں سے جو ظالم و جابر تھے انہیں فورا ً عہدے سے ہٹا دیاحتی کہ اُموی حکومت میں سب سے زیادہ ظالم و جابر حجاج بن یوسف کے خاندان والے اوراس کےماتحت عہدہ داروں کو معزول کر کے یمن بھیج دیااوروہاں کے عامل کو لکھا: ”میں تمہارے پاس آلِ ابی عقیل کو بھیج رہا ہوں،جو عرب میں بدترین خاندان ہے، انہیں اپنی حکومت میں ادھر ادھر منتشر کردو۔“ ([1])
وقتاً فوقتاً حکام کی تربیت:کسی بھی اقدام کے دیر پا اثرات کے لئے مسلسل تربیت بے حدضروری ہے، اسی لئے آپ نے وقتاً فوقتاً حُکّام کو خطوط لکھ کر ظلم و جبر سے دور رہنے کی تربیت وتلقین فرمائی۔([2]) ایک مرتبہ بذریعہ خط اپنے کسی گورنر سے فرمایا: اگر تم عدل و احسان اور درستی اتنی کر سکو کہ جتنی سرکشی اور جتنا ظلم و جبر تم سے پہلے والوں نے کیا تھا تو ایسا ضرور کرو۔([3])اس کے علاوہ تقویٰ اختیار کرنے، شریعت کی پیروی کرنےاور لوگوں کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتے رہنےکی نصیحتیں بھی فرماتےرہتے۔([4])
(2)علم دین کی نشر و اشاعت:حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نے لوگوں میں شعور پیدا کرنے اور علمِ دین عام کرنے کے لئے اس وقت موجود حفاظ،علما، فقہا اور واعظین کے لئے بیتُ المال سے وظائف مقرر کئے، اور ان کا خرچہ اپنے ذمے لے کر انہیں قراٰن و حدیث کی تبلیغ، لوگوں کی راہنمائی اور اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے لئے مقرر فرمادیا۔ جیسا کہ جعفر بن بُرقان کو خط کے ذریعے حُکم فرمایا کہ” اپنے علاقے کے فقہا و علما کی بارگاہ میں حاضِر ہو کر عَرض کرو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو عِلم عطا کیا ہے اسے اپنے اِجتماعات اور مساجد میں پھیلائیے۔([5]) اس پورے پروجیکٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ باشعور بن گئے اور جھگڑے فساد، بغض و عداوت، کینہ پروری اور آپسی جھگڑوں سے دور رہ کر امن و سکون کی زندگی گزارنے لگے۔
(2)مختلف جہات سے آزادی:جیسےپرندے کواونچی پرواز کے لئے آزادفضاچاہئے ایسے ہی کسی بھی قوم کی ترقی و خوش حالی کے لئے انہیں آزادی درکار ہوتی ہےکیوں کہ گُھٹ گُھٹ کر جینے والی قوم کی ترقی کی پرواز اونچی نہیں ہوسکتی اِسی لئےحضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنےزمانَۂ حکومت میں لوگوں پر سے ہر وہ رکاوٹ اورپابندی ختم کردی جس کا شریعت نے مطالبہ نہیں کیا اور ہر وہ آزادی دی جس کی اجازت دینے سے شریعت نے نہیں روکا۔
فریاد کرنے کی آزادی:جس حکومت میں دُکھیاروں کی سُنی جاتی ہواوردُکھ کو سُکھ سے بدلنے کے لئے بہتر سے بہترین اقدامات کئے جاتے ہوں وہاں رحمتِ الٰہی ترقی و خوشحالی کی صورت میں اُترتی ہے۔حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ عام لوگوں کی حاجتوں اور ضرورتوں سے واقف رہ کر ان کی مشکلات اور پریشانیوں کو دور فرماتے۔ آپ نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا: جب بھی تم میں سے کوئی اپنی حاجت لے کر میرے پاس آتا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اس کی حاجت پوری کردوں جتنی میری استطاعت ہو۔([6])
بزنس کی آزادی:شرعی احکام کے مطابق کیاجانے والا ”بزنس“ معیشت کو مستحکم کرنے اور رکھنے کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، چنانچہ آپ نے ہر ایک کو جائز بزنس جائز طریقوں کے ساتھ کرنے کی اجازت دی اور اپنے گورنروں کو بھی یہ تاکید فرمائی کہ کاروبار اور تجارت کے معاملے میں خشکی و سمندر کہیں پر بھی کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے اور ہر ایک کو اس کی مرضی کے مطابق بزنس اور کام کاج کی اجازت دی جائے۔([7]) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کی بزنس میں دل چسپی بڑھنے لگی اور لوگ بغیر کسی پریشانی و رکاوٹ کےکام کاج میں مصروف ہوگئے اور اس سے معیشت بہت تیزی کے ساتھ مستحکم ہونے لگی۔
(3)بیت المال کے نظام میں بہتری: حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ بیت المال کی اصلاح، حفاظت اور نگرانی کاسختی سے نوٹس لیتے تھے، اس میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے اور جو عمال اس میں ذرا بھی غفلت کرتےآپ اُن کو فوراً تنبیہ فرماتے چنانچہ ایک بار یمن کے بیتُ المال سے ایک دینار گم ہوگیا تو آپ نے بیتُ المال کے افسر کو لکھا :میں تمہاری دین داری اور امانت داری پر کوئی الزام نہیں لگاتا ، لیکن تمہاری بے پروائی اور غفلت کو جرم قرار دیتا ہوں۔ میں مسلمانوں کے مال کی طرف سے مدعی ہوں، تم پر فرض ہے کہ قسم کھاؤ!([8])
گورنرکوگرفتار کرلیا:خراسان کے گورنر یزید بن مہلب کے ذمے بیتُ المال کی ایک بڑی رقم واجبُ الادا تھی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نےاس کو دربارِ خلافت میں طلب کر کے اس سے رقم کا مطالبہ فرمایا، اس نے رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس سے فرمایا:’’اگر تم نے رقم بیتُ المال میں جمع نہ کروائی تو تمہیں قید کر دیا جائے گا، جو رقم تم نے دبا رکھی ہے وہ تمہیں ہر حال میں ادا کرنی ہو گی، وہ مسلمانوں کا حق ہے میں اسے کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘چنانچہ ٹال مٹول کرنے پر یزید بن مہلب کو جیل خانے بھجوا دیا گیا ۔یزید بن مہلب کے بیٹے مخلد کو جب اس کی اطلاع ملی کہ میرے والد کوجیل بھجوا دیا گیا ہے تو وہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے والد کی رہائی کامطالبہ کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا : ’’ میں جب تک تمہارے والد سے ایک ایک کوڑی نہ وصول کر لوں، تمہارے والد کو نہیں چھوڑوں گا۔“([9])
بیت المال سے ملنے والے وظائف میں برابری:آپ نے اپنی رعایا کے درمیان ہر معاملے میں مساوات (برابری) کی اعلیٰ مثال قائم فرمائی، چنانچہ آپ نے مالداروں کوپچھلی حکومتوں کی طرف سے بیتُ المال سے ملنے والے خصوصی الاؤنسز دینے سے منع فرمادیا اور بیتُ المال سے ان کے لئے بھی اتنا ہی حصّہ مقرر کیا جتنا حصّہ ایک عام شہری کا مقرر تھا حتیٰ کہ اپنے آپ کو بھی کسی اضافی الاؤنس کا مستحق نہ سمجھا، اور جب ان مالداروں نے آپ کی بارگاہ میں آکر اپنے لئےاِس کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”میرے پاس تو تمہارے لئے کوئی مال نہیں، اور رہی بات بیت المال کی، تو بیت المال پر تمہارا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دور دراز کےایک شہری کا۔“([10])
غربت کا خاتمہ:جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کی خلافت میں ظلم کا خاتمہ ہوگیا،غصب شدہ مال واپس مل گئے، ناجائز ٹیکس منسوخ کردیئے گئے، ہرایک کے حقوق کا خیال رکھا جانے لگا تو لوگ خوشحال ہوگئے۔ آپ نے مختصر مدت میں اس معاشی اور انتظامی ظلم کے خاتمے کے لئے فیصلہ کن قدم اُٹھائے اوریہ ثابت کیا کہ قراٰن و سنّت پر اِس طرح عمل کرکے بہت ہی کم عرصے میں گرتی ہوئی معیشت کوسنبھالا جاسکتا ہےاور خاص و عام کو اسلامی احکام کا عادی بناکر ترقی وخوش حالی میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کیا جاسکتا ہے، اِ س کے لئے شرط یہ ہے کہ پورے اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ قراٰ ن و سنّت کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments