قراٰنی تعلیمات
مخلوقات میں غور و فکر کی قراٰنی ترغیبات(قسط:01)
*مولانا ابو النور راشد علی عطّاری مدنی
ماہنامہ اگست 2024
قراٰنِ کریم میں اللہ ربّ العزّت کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کا بیان کئی طرح سے ہوا ہے۔ اسی بیان کی تفہیم کے لئے کئی عقلی دلائل کے ذریعے مخلوقات میں غوروفکر کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ مخلوقاتِ الٰہی میں غوروفکر کی اہمیت و ضرورت اور فوائد و ثمرات نیز غور و فکر نہ کرنے پر وعیدات کا بیان گذشتہ مضمون میں ہوا۔ ذیل میں اِس حوالے سے لکھا جارہا ہے کہ قراٰن کریم نے مخلوقات میں غوروفکر کرنے پر کس کس انداز میں ابھارا ہے؟ خاص طور پر منکرینِ قدرتِ الٰہی کو اللہ کے قادرِ مطلق ہونے کا یقین حاصل کرنے کے لئے جو مخلوقات کے مشاہدہ کی تلقین کی ہے، اس کا انداز کیا کیا ہے؟ یہاں یہ فرق واضح رہے کہ مخلوقات میں غوروفکر کرنے پر ابھارنا الگ موضوع ہے جبکہ مختلف مخلوقات میں سے ہر مخلوق کے بارے میں قراٰنی تعلیمات جاننا الگ موضوع ہے۔ ذیل میں ہمارا موضوع اولّ الذکر ہے۔
قراٰنِ کریم نے مختلف مخلوقاتِ الٰہی کے ذکر سے غوروفکر پر ابھارا ہے جن میں آسمان، زمین، نباتات، حیوانات، رات دن اور دیگر کئی مخلوقات شامل ہیں۔ ہم اسے 12 نکات کے تحت بیان کریں گے:
(1)آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(2)مراحلِ تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(3)سایہ کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(4)پرندوں کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(5)زمین اور نباتات کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(6)رات اور دن کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(7)تخلیق و تقسیمِ رزق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(8)نظامِ آب اور کھیتی کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(9)اللہ کی قدرت و اختیارات میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(10)چوپایوں کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(11)زمین و آسمان کی نعمتوں کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا۔
(1)آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر پر ابھارنا
قراٰن ِ کریم نے کئی مقامات پر آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر کرنے پر مختلف انداز میں ابھارا ہے، چنانچہ
سورۃ ُالاعراف میں فرمایا:
( اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍۙ-وَّ اَنْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْۚ-فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ(۱۸۵) )
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: کیا انہو ں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو جو چیز اللہ نے پیدا کی ہے اس میں غور نہیں کیا؟ اور اس بات میں کہ شاید ان کی مدت نزدیک آگئی ہو تو اس (قراٰن) کے بعد اور کونسی بات پر ایمان لائیں گے؟ ([i])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یہ آیتِ مبارکہ واضح دعوتِ تفکر دے رہی ہے کہ کیا اللہ کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کے منکر آسمانوں، زمین اور اللہ کریم کی دیگر مخلوقات میں غور نہیں کرتے، تاکہ وہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر اِستدلال کریں کیونکہ ان سب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حکمت و قدرت کے کمال کی بے شمار روشن دلیلیں موجود ہیں۔
سورۂ یونس میں فرمایا:
( قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-)
ترجَمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ دیکھو آسمانوں اور زمین میں کیاکیا ہے۔([ii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت میں بھی زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر غوروفکر کرنے پر ابھارا گیا ہے، گویا فرمایا گیا: غور کرو کہ آسمانوں اور زمین میں توحیدِباری تعالیٰ کی کیاکیا نشانیاں ہیں، اوپر سورج اور چاند ہیں جو کہ دن اور رات کے آنے کی دلیل ہیں، ستارے ہیں جو کہ طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے۔ زمین میں پہاڑ،دریا، دفینے، نہریں، درخت نباتات یہ سب اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے اور ان کا خالق ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔([iii])
کفارِ مکہ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے منکر تھے، قراٰن کریم نے اس عقیدہ کو بہت بار اور کئی اسالیب سے بیان کرتے ہوئے غوروفکر پر ابھارا ہے، چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے:
( اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَ جَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْهِؕ-فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا(۹۹) )
ترجَمۂ کنز الایمان :اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین بنائے ان لوگوں کی مثل بناسکتا ہے اور اس نے ان کے لیے ایک میعاد ٹھہرا رکھی ہے جس میں کچھ شبہ نہیں تو ظالم نہیں مانتے بے ناشکری کیے۔([iv])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سورۃ ُالْاَحقاف میں فرمایا:
( اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ یُّحْیَِۧ الْمَوْتٰىؕ-بَلٰۤى اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۳۳) )
ترجَمۂکنزالایمان: کیا انہوں نے نہ جانا کہ وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین بنائے اور ان کے بنانے میں نہ تھکا قادر ہے کہ مُردے جِلائے (زندہ کرے) کیوں نہیں بےشک وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔([v])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
عقیدۂ آخرت کے بارے میں غوروفکر پر ابھارنے کے لئے آسمان و زمین کی تخلیق پر غور کرنے کا فرمایا:
( اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ(۸) )
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: کیا انہوں نے اپنے دلوں میں غوروفکر نہیں کیا کہ الله نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو حق اور ایک مقررہ مدت کے ساتھ پیدا کیا اور بیشک بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کے منکر ہیں۔ ([vi])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
ان آیات میں زمین و آسمان کی تخلیق اور اس تخلیق سے عدم تھکاوٹ کا ذکر کرتے ہوئے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت و قدرت کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی ہے اور غوروفکر پر ابھارا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کسی مثال کے بغیر پہلی بار میں آسمان اور زمین جیسی عظیم مخلوق بنا دی اور انہیں بنانے میں وہ ہر تھکاوٹ سے پاک ہے تو وہ خالق و مالک جب آسمان و زمین بنا سکتا ہے کیا وہ مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں جو کہ زمین و آسمان بنانے سے ظاہراً لوگوں کے اعتبار سے کہیں آسان ہے،کیوں نہیں، وہ ضرور اس پر قادر ہے۔([vii])
زمین و آسمان کی تخلیقات میں غوروفکر کرنے اور اس سے نصیحت و بصیرت پانے والوں کو عقل مند فرمایا گیا ہے:
( اَفَلَمْ یَنْظُرُوْۤا اِلَى السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنٰهَا وَ زَیَّنّٰهَا وَ مَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ(۶) وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍۙ(۷) تَبْصِرَةً وَّ ذِكْرٰى لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ(۸) )
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا ہم نے اسے کیسے بنایا اور سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں مضبوط پہاڑ ڈالے اور اس میں ہربارونق جوڑا اگایا۔ ہر رجوع کرنے والے بندے کیلئے بصیرت اور نصیحت کیلئے۔ ([viii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یہاں کفار کو غوروفکر پر ابھارا گیا ہے کہ جب کافروں نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کیا اُ س وقت کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا جس کی تخلیق میں ہماری قدرت کے آثار نمایاں ہیں تاکہ وہ اس بات میں غور کرتے کہ ہم نے اسے کیسے اونچا اور بڑا بنایا اورستونوں کے بغیر بلند کیا اور اسے روشن ستاروں سے سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں،کہیں کوئی عیب اور کمی نہیں۔ تو جو رب تعالیٰ اتنے بڑے آسمان کو بنا سکتا ہے اور ظاہری اسباب کے بغیر اسے بلند کر سکتا اوراس میں ستاروں کو روشن کر سکتا ہے اور اتنے طویل و عریض آسمان کو کسی شگاف اور نقص و عیب کے بغیر بنا سکتا ہے وہی رب تعالیٰ مُردوں کو دوبارہ زندہ کر دے تو اس میں کیا بعید ہے؟([ix])اور کیا ان کافروں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے زمین کوپانی کی سطح پر اس طرح پھیلایا کہ پانی میں گھل کر فنا نہیں ہوتی ورنہ مٹی پانی میں گھل جاتی ہے اورزمین پر بڑے بڑے پہاڑ کھڑے کردئیے ہیں تاکہ زمین قائم رہے اور اس میں ہر سبزے،پھلوں اور پھولوں کے جوڑے اُگائے جو دیکھنے میں خوبصورت لگتے ہیں تو جو رب تعالیٰ زمین کو پیدا فرما سکتا،پہاڑوں کے ذریعے اسے قائم رکھ سکتا اور ا س میں نَشْوْ ونما کی قوت پیدا کر سکتا ہے تو مُردوں کو دوبارہ زندہ کر دینا اس کی قدرت سے کہاں بعید ہے۔([x])
( اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاۙ(۱۵) وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْهِنَّ نُوْرًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا(۱۶) )
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے ایک دوسرے کے اوپر کیسے سات آسمان بنائے ؟اور ان میں چاند کو روشن کیا اور سورج کو چراغ بنایا۔([xi])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت میں بھی بہت خوب دعوتِ تفکر ہے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے اوپر کیسے سات آسمان بنائے اور ان آسمانوں میں چاند کو روشن کیا اور سورج کو چراغ بنایا کہ وہ دنیا کو روشن کرتا ہے اور دنیا والے اس کی روشنی میں ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے گھر والے چراغ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ سورج کی روشنی چاند کے نور سے مضبوط تر ہے۔([xii])
ایک مقام پر اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین کی تخلیق پر غوروفکر کرنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا:
( اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ(۱۷) وَ اِلَى السَّمَآءِ كَیْفَ رُفِعَتْٙ(۱۸) وَ اِلَى الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْٙ(۱۹) وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ(۲۰) )
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسا بنایا گیا ہے۔ اور آسمان کو، کیسا اونچا کیا گیاہے۔ اور پہاڑوں کو، کیسے قائم کیا گیا ہے۔ اور زمین کو، کیسے بچھائی گئی ہے۔([xiii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
جنّتی نعمتوں اور قدرتِ الٰہی کے دیگر شاہکاروں کے منکرین کفار کو غوروفکر پر ابھارا کہ غور کریں اورسمجھیں کہ جس قادر حکیم نے دنیا میں ایسی عجیب و غریب چیزیں پیدا کی ہیں، اس کی قدرت سے جنتی نعمتوں کا پیدا فرمانا کس طرح قابلِ تعجب اور لائقِ انکار ہوسکتا ہے۔کیا یہ اونٹ کونہیں دیکھتے کہ کیسا بنایا گیا ؟ آسمان کو کیسے ستونوں اور کسی سہارے کے بغیر اونچا کیا گیا، کیا انہوں نے پہاڑوں کو نہیں دیکھا جنہیں زمین میں نَصب کردیا گیا کہ زمین کے لئے سہارا اور اس کے لئے میخوں کے قائم مقام ہیں۔ اگر یہ منکرین صاف دل سے سوچیں اور سچی نگاہ سے دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کو فوراً تسلیم کریں۔
(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ،نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ)
Comments