Book Name:Mout Ki Yad Kay Fazail Shab e Qadr 1442
ایمان برباد کر بیٹھا ، اُس کی زبان سے بے ساختہ نکل جائے گا : “ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لَااَدْرِی افسوس ! افسوس! مجھے کچھ معلوم نہیں “ پھر پوچھا جائےگا : “ مَادِیْنُک تیرا دین کیا ہے ؟ “ جس بد نصیب نے صرف اور صرف دنیا ہی بسائی تھی ، دنیا ہی کے امتحان میں پاس ہونے کی فکر اپنائی تھی ، قبر کے امتِحان کی تیّاری کی طرف کبھی ذِہن ہی نہ گیا تھا ، بس صرف دنیا کی رنگینیوں ہی میں کھویا ہوا تھا ، کچھ سمجھ نہیں آرہی اور زَبان سے نکل رہاہوگا “ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لَااَدْرِی افسوس! افسوس! مجھے کچھ معلوم نہیں “ پھراسے بھی وہی حسین و جمیل نُور برساتا جلوہ دِکھایا جائے گا اور سُوال ہوگا : “ مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُل اِن کے بارے میں تُو کیا کہتا تھا؟ “ اس وقت پہچان کیسے ہوگی!داڑھی سے تو اُنْسِیَّت تھی ہی نہیں ، غیروں کا طریقہ ہی عزیز تھا ، زندگی بھر داڑھی مُنڈانے کا معمول رہا تھا ، یہ تو داڑھی شریف والی شخصیت ہےاور کبھی زندگی میں عِمامے کا سوچا بھی نہیں تھا ، یہ تشریف لانے والے بزرگ تو سرپر عمامہ شریف سجائے ہوئے زلفوں والے ہیں ، مجھے توفنکاروں اور گُلوکاروں کی پہچان تھی ، نجانے یہ کون صاحِب ہیں ؟ آہ ! جس کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہُوا ، اس کے منہ سے نکلے گا : “ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لَااَدْرِی افسوس! افسوس! مجھے کچھ معلوم نہیں “ اتنے میں جنّت کی کھڑکی کُھلے گی اور فوراً بند ہو جائے گی پھرجہنم کی کھڑکی کُھلے گی اور کہا جائے گا : “ اگرتُونے دُرُست جواب دیئے ہوتے تو تیرے لئے وہ جنّت کی کھِڑکی تھی “ یہ سُن کراُسے حسرت بالائے حسرت ہوگی ، کفن کو آگ کے کفن سے تبدیل کردیا جائے گا ، آگ کا بچھونا قبر میں بچھا دیا جائےگا ، سانپ اور بچھو لپٹ جائیں گے۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمّد