Book Name:Farooq e Azam Ki Aajizi o Sadgi
فاروقِ اعظم کی عاجزی وانکساری کی انتہا :
امیر المؤمنین حضرت عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ ملک شام تشریف لے گئے ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ عَنْہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ دونوں ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں گھٹنوں تک پانی تھا ، آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے ، اونٹنی سے اترے اور اپنے موزے اتار کر اپنے کندھے پر رکھ لئے ، پھر اونٹنی کی لگام تھام کرپانی میں داخل ہو گئے تو حضرت ابوعبیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی : “ اے امیرالمؤمنین! آپ یہ کام کررہے ہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ یہاں کے باشندے آپ کو نظر اٹھا کر دیکھیں ۔ “ تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عاجزی وانکساری سے بھرپور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : افسوس اے ابوعبیدہ! اگریہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور کہتا تو میں اسے اس اُمت کے لئے نشان عبرت بنا دیتا۔ کیا تمہیں یاد نہیں ہم ایک بے سرو سامان قوم تھے ، پھر اللہ پاک نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشی ، جب بھی ہم اللہ پاک کی عطا کردہ عزت کے علاوہ عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ پاک ہمیں رُسوا کردے گا۔ (مستدرک ، کتاب الایمان ، قصۃ خروج عمر الی الشام ، ۱ / ۲۳۶ ، حدیث : ۲۱۴)
اے عاشقانِ صحابہ! آپ نے سنا کہ خلیفۃ المسلمین امام العادلین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ اور آدھی دنیا کی سلطنت کے مالک ہونے کے باوجود کیسے عاجزی و انکساری کے پیکر تھے ، جبکہ آج کل کے زمانے میں اگر کسی شخص کو کوئی بڑا منصب یا عہدہ مل جائے تو وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اعلی سمجھنے لگتا ہے ، خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھنے لگتا ہے اس کی یہ سوچ بن جاتی ہے کہ دوسرا تو غلط ہوسکتا ہے میں غلط نہیں ہوسکتا اور اگر کبھی کوئی اس کی غلطی کی نشاندہی کرنے کی جسارت کر بیٹھے تو اس کے خلاف انتقامی کاروائی شروع کر دیتا ہے مگر قربان جائیے حضرت عمر