Book Name:Azadi Kisay Kehtay Hain

کی ، امتحان کی حاجت ہی نہیں ہے مگر انسان کے اندر کا جو جَوہَر ہے ، ایک اچھے انسان کے اندر کی جو اچھائی ہے اور ایک بُرے انسان کے اندر کا جو شیطان ہے ، اسے دُنیا کے سامنے ظاہِر کیا جاتا ہے ، بادشاہوں کو غُلام بنا کر ، غُلاموں کو بادشاہ بنا کر اِنْسان کی حقیقت سے پردہ اُٹھایا جاتا ہے ، کتنے ایسے ہیں جو بادشاہ بَن کر ، کسی بڑے عہدے پر رِہ کر ، منصب پر رِہ کر بڑے نیک ہوتے ہیں ، بڑے شکر گزار ہوتے ہیں ، بڑے رحم دِل ہوتے ہیں مگر جب ان سے بادشاہی چھن جاتی ہے ، جب ان سے منصب لے لیا جاتا ہے ، تب ان کے اندر کا اَصْل انسان کھل کر سامنے آتا ہے ، تب  یہ اپنے اُسی رَبِّ کریم سے شِکوہ کرنے لگتے ہیں ، جس نے انہیں بادشاہ بنایا تھا ، جس نے انہیں عہدہ اور منصب دیا تھا ، یہ لوگ اصل میں اللہ پاک سے محبت کرنے والے نہیں ہوتے ، یہ اپنے منصب اور عہدے سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں ،  کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فقیر ہوں ، غریب ہوں تو بڑے نیک ہوتے ہیں ، رحم دِل ، شکر گُزار ہوتے ہیں مگر جیسے ہی منصب ملتا ہے ، جیسے ہی عہدہ ملتا ہے ، جیسے ہی چار پیسے جیب میں آتے ہیں تو ان کے اندر کا غرور ، ان کے اندر کا گھمنڈ کُھل کر سامنے آجاتا ہے ، یہ بھی اللہ پاک سے محبت کرنے والے نہیں بلکہ اَصل میں اپنے اندر کی اُس خواہش کے ، اپنے اندر کے غُرور اور تکبر کے غُلام ہیں ، اللہ پاک کا سچا بندہ وہ ہے جو ہر حال میں ایک جیسا رہتا ہے ، جو  غریب ہو تب بھی شکر گزار ہوتا ہے اور اگر اسے منصب مِل جائے ، تب بھی اللہ پاک کا شکر گزار رہتا ہے۔

بنی اسرائیل کو بھی آزمایا گیا ، فِرْعَون کو بھی آزمایا گیا ، حضرت یُوسُف عَلَیْہِ السَّلَام جو مِصْر کے حکمران تھے ، جو مِصْر کے باقاعِدہ مالِک تھے ، قحط کے دِنوں میں حضرت یُوسُف عَلَیْہِ