Book Name:Ala Hazrat Ka Tasawuf
کہ ولی اورپِیر کے لیے عالِم ہونا ضروری ہے تا کہ لوگوں کی دُرست شرعی رہنمائی کر سکیں۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!تصوف کا باب نہایت کشادہ ہے ، صوفیائے کرام نے تصوف کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں ، چنانچہ منقول ہے کہ (پابندِشریعت ہونے)عجز واِنکساری اپنانے اور توکُّل وقناعت اختیار کرنے کا نام تصوف ہے۔ (اللہ والوں کی باتیں ، ۵ / ۳۹)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پابندِ شریعت اورعاجزی و انکساری کےپیکر ہونے کے ساتھ ساتھ توکل و قناعت کی قیمتی دولت سے مالا مال تھےاورآپ انتِہائی کم غِذا اِسْتِعْمال فرمایاکرتے تھے ، آپ کی عام غِذا چکّی کے پسے ہوئے آٹے کی روٹی اور بکری کا قَورمہ تھا ، آخِرِ عُمر میں یہ غِذا مزید کم ہو کر فقط ایک پیالی بکری کے گوشت کا شوربا بِغیر مرچ کا اور ایک ڈیڑھ بسکٹ (Biscuit) سُوجی کا تَناوُل فرماتے تھے ، الغرض کھانے پینے کے مُعاملے میں آپ نہایت سادہ تھے۔ (فیضانِ اعلیٰ حضرت ، ص۱۱۳)اسی طرح روزہ رکھنا آپ کو بہت پسند تھا ، کیسی ہی علالت(بیماری) ہوتی ، کتنی ہی نقاہت(کمزوری) ہوتی(ماہِ رمضان کا)روزہ کبھی نہ چھوڑتے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بھتیجے اورخلیفہ مَوْلانا حَسَنَیْن رَضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : روزے کی قَضا کے بارے میں نہ اُن کے کسی بڑے کی زَبانی سُنا نہ کسی برابر والے نے بتایا نہ ہم چھوٹوں نے کبھی ماہِ مُبارَک کا کوئی روزہ قَضا کرتےدیکھا ۔ بعض مرتبہ ماہِ (رَمَضان)مُبارَک میں بھی عَلالت ہوئی مگر اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے روزہ نہ چھوڑا ، اگر کسی نے بَاِصرار عَرض بھی کِیا کہ ایسی حالت میں روزے سے کمزوری اور بڑھے گی تو اَرْشادفرمایا : مَریض ہوں تو عِلاج نہ کروں ؟لوگ تعجّب سے کہتے تھے کہ روزہ بھی کوئی عِلاج ہے۔ اَرْشادفرمایا : اِکْسِیْر عِلاج ہے ، میرے آقا مدینے والے مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بتایا ہواہے۔ اِرشادفرماتےہیں : صُوْمُوا تَصِحُّوایعنی روزہ رکھو تَنْدُرُسْت ہوجاؤ گے۔ (معجم اوسط ، ۶ / ۱۴۶ ، حدیث : ۸۳۱۲)