Book Name:Ala Hazrat Ka Tasawuf

قافلہ  چھوڑدیا نماز نہ چھوڑی :

 (اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہ)باون (52) برس کی عمر میں جب دوسری بار سَفَرِ حج کے لیے روانہ ہوئے ، مَناسک حج اَدا کرنے کے بعد آپ رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہ ایسےعَلِیْل (بیمار)ہو ئے کہ دو ماہ سے زیادہ صاحبِ فراش رہے ، جب کچھ رُو بہ صحّت ہوئے تو زیارتِ روضۂ اَنور کےلیے کمر بستہ ہوئےاور “ جَدّہ شریف “ سے ہوتےہوئے بذریعہ کَشتی تین(3) دن کے بعد “ رابغ “ پہنچے ، اوروہاں سے مدینۃُ الرَّسول کےلیے اُونٹ کی سُواری کی ، اسی راستے میں جب “ بیرِ شیخ “ پہنچے تومنزِل قریب تھی لیکن فَجْر کا وَقْت تھوڑا رہ گیاتھا۔ اُونٹ والوں نے منزِل ہی پر اُونٹ روکنے کی ٹھانی لیکن تب تک نمازِ فَجْر کا وَقْت نہ رہتا ، سیّدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : (یہ صُورتِ حال دیکھ کر )میں اور میرے رُفَقَا(یعنی ساتھی) اُتر پڑے ، قافِلہ چلا گیا۔ کِرْ مِچ کا (یعنی مخصوص ٹاٹ کا بنا ہوا ) ڈول پاس تھا۔ رَسی نہیں اور کُنواں گہر ا ، عِمامے باندھ کر پانی بھرا (اور) وُضو کیا۔ بِحَمْدِاللہ نماز ہوگئی۔ اب یہ فکر لاحِق ہوئی کہ طولِ مَرَض(طویل عرصہ بیمار رہنے کی وجہ) سے ضُعْفِ شدید (کمزوری بہت )ہے ، اتنے مِیل پیادہ (پیدل) کیونکر چلنا ہوگا ؟مُنہ پھیرکر دیکھا تو ایک جَمَّال (اُونٹ والا)مَحْض اَجْنَبی اپنا اُونٹ لیے میرے اِنتظار میں کھڑا ہے ، حمدِ الٰہی بجالایااور اُس پر سُوار ہو ا۔ اس سے لوگوں نے پُوچھا کہ تم یہ اُونٹ کیسےلائے؟کہا : ہمیں شیخ حسین نے تاکید کردی تھی کہ شیخ (اَعلیٰ حضرت )کی خدمت میں کمی نہ کرنا ، کچھ دُور آگے چلے تھے کہ میرا اپناجَمَّال(اُونٹ والا) اُونٹ لیے کھڑا ہے ۔ اُس سے پُوچھا ، کہا : جب قافلے کےجَمَّال نہ ٹھہرے ، میں نے کہا شیخ کو تکلیف ہوگی ، قافلہ میں سے اُونٹ کھول کر واپس لایا ۔ یہ سب میری سرکارِ کرم کی وَصِیَّتیں تھیں ''صَلَّی اللہُ تَعَالٰی وَبَارَکَ وَسَلَّم عَلَیْہِ وَعَلٰی عِتْرَتِہٖ قَدْرَ رَاْفَتِہٖ وَرَحْمَتِہٖورنہ