Book Name:Farooq-e-Azam Ki Nasihatain

گپیں شروع کر دیتے ہیں، آج کل تو پِھر موبائِل بھی ہاتھ میں ہیں، انٹرنیٹ کا پیکج لگا ہوا ہے، اور کچھ نہ ملے تو اِسی پر شروع ہو جاتے ہیں، فُضول قسم کی چیٹنگ ہوتی ہے یا پِھر فُضولیات دیکھنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ غرض؛ فُضول میں بس بولتے جانے کی ایسی عادَت ہے کہ شاید صِرْف سوتے وقت ہی خاموش ہوتے ہوں گے، بعض اُس وقت بھی خاموش نہیں رہتے، اس وقت بھی بولتے ہی رہتے ہیں۔ اللہ  پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

ایمان پکّا کرنے کا طریقہ

حضرت اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں: سرور عالم، نورِ  مُجَسَّم   صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: بندے کا ایمان درست نہیں ہوتا، جب تک کہ اُس کا دِل درست نہ ہو اور بندے کا دِل درست نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اُس کی زبان درست نہ ہو جائے۔  ([1])

یارَبّ! نہ ضرورت کے سوا کچھ کبھی بولوں   اللہ ! زباں کا ہو عطا قفلِ مدینہ([2])

سُبْحٰنَ اللہ ! پتا چلا؛ زبان کی حفاظت کے ذریعے دِل روشن ہو جاتا ہے، جب دِل روشن ہو جاتا ہے تو ایمان پکّا ہو جاتا ہے اور جب ایمان پکّا ہوتا ہے، پِھر جانتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ ایک مدنی بہار سنیئے!

آقا کا دِیدار مِل گیا

ایک اسلامی بہن جو عطّاریہ ہیں، اُنہوں نے خاموشی کی اہمیت پر مبنی امیر ِاہلسنّت دامَت بَرَکاتُہمُ العالِیہ    کا بیان سُنا، دِل چوٹ کھا گیا اور زبان کو فُضول باتوں سے بچانے کا ذِہن بن گیا۔ اب اُنہوں نے خاموش رہنا شروع کر دیا۔ کہتی ہیں: ابھی 3 ہی دِن گزرے تھے کہ


 

 



[1]...مسند امام احمد، جلد:  5، صفحہ:432 ،حديث:12897۔

[2]...  وسائل بخشش، صفحہ:93۔