Book Name:Farooq-e-Azam Ki Nasihatain
جب بندہ گُنَاہ چھوڑ دیتا ہے تو اس کی نیکیاں پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتی ہیں۔
پیارے اسلامی بھائیو! تقویٰ کا لباس اَفْضَل ہے۔ یہ تقویٰ ہوتا کیا ہے؟ یہ بھی سُن لیجئے! ایک روز مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت کَعْبُ الْاَحْبَار رحمۃُ اللہ علیہ سے فرمایا: اے کعب! بتائیے تقویٰ کیا ہے؟ حضرت کَعْبُ الْاَحْبَار رحمۃُ اللہ علیہ نے عرض کیا: اے اَمَیْرُ الْمُؤمِنِین! کیا آپ کبھی ایسے راستے سے گزرے ہیں جس پر کانٹے دار جھاڑیاں ہوں؟ حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ہاں، بالکل میرا ایسے راستے سے گزر ہوا ہے۔ حضرت کعب رحمۃُ اللہ علیہ نے عرض کیا: تب آپ ایسے راستے سے کس طرح گزرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں کانٹوں سے بچتا ہوں اور اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں۔ حضرت کعب رحمۃُ اللہ علیہ نے عرض کیا: ذٰلِکَ التَّقْویٰ بَس یہی تقویٰ ہے۔([1])
مطلب یہ کہ ہم اس دُنیا میں آئے، اللہ پاک نے ہمیں پاکیزہ روح عطا فرمائی ، پاک صاف دل عطا فرمایا، اب ہم اس دُنیا سے گزر کر آخرت کی طرف جا رہے ہیں، گویا یہ دُنیا ایک راستہ ہےاور اس راستے پر کانٹے دار جھاڑیاں ہیں، ایک طرف شیطان ہے، ایک طرف نفس ہے، ایک طرف محبّتِ دُنیا ہے، ایک طرف مال کی محبت ہے، حَسَد، بغض، کینہ، خواہش پرستی وغیرہ وغیرہ ہزاروں گُنَاہ اور ہزاروں گُنَاہ کے راستے، یہ سب گویا کانٹے دار جھاڑیاں ہیں، ہم نے زِندگی کے اس سَفَر میں اپنی پاکیزہ رُوح کو، اپنے دِل کو ان کانٹے دار جھاڑیوں (یعنی گُنَاہوں) سے بچاتے ہوئے گزر جانا ہے، بَس اسی چیز کا نام تقویٰ ہے۔
اللہ پاک ہمیں گُنَاہوں سے بچنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔