Book Name:Zuhad Sunnat e Mustafa Hai

بےرغبتی کا مطلب ہے: دِل سے دُنیا کی محبّت نکل جائے۔

امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ہمارے پِیر صاحِب دُنیا سے بےرغبتی کا بہت دَرْس دیتے تھے، میں نے دیکھا کہ انہوں نے جو جانور رکھے ہوئے ہیں، اُن جانوروں کو سونے کے کھونٹوں کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ فرماتے ہیں: مجھے حیرانی ہوئی۔ میں نے ہمت کر کے پُوچھ ہی لیا کہ عالی جاہ! یہ کیا ماجرا ہے ؟ ہمیں دُنیا سے روکتے ہیں، خُود اتنا مال رکھتے ہیں۔ آپ کے پِیر صاحِب نے بہت پیارا جواب دیا، فرمایا: ہم نے سونے کے کھونٹے زمین میں گاڑھے ہیں، دِل میں نہیں گاڑھے۔([1])

مطلب کہنے کا یہ کہ دُنیا کا مال اگر اللہ  پاک نے عطا فرمایا ہے یا نہیں عطا فرمایا، بہر صُورت ہمارے دِل میں اس کی محبّت نہیں ہونی چاہیے، حِرْص نہ ہو، لالچ نہ ہو، اللہ  پاک نے مال دیا ہے تب بھی اُس کا شکر ہے، نہیں دیا تب بھی اُس کا شکر ہے، ہم مال کے نہیں بلکہ اپنے رَبّ ِ کریم کے بندے ہیں۔ بس اپنی پُوری تَوَجُّہ اس مالِکِ کریم کی طرف ہی لگائے رکھنی ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں: دِل یار وَل، ہَتھ کار وَل۔

کار یعنی کام۔ مطلب یہ کہ دِل میں یادِ خُدا ہو اور آدمی اپنی ضروریات بھی پُوری کرتا رہے، اللہ  پاک کی یاد میں بھی مَصْرُوف رہے۔ یہی اَصْل مَقْصُود ہے۔ جیسے ہم نے مِیلادِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دُھوم دَھام سے مَنایا، اللہ  پاک ہمیں مِزاجِ مصطفےٰ بھی اسی طرح ذوق شوق سے اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔ کاش! دِل سے دُنیا کی محبّت نکل جائے اور ہم آخرت کی طلب کرنے والے بن جائیں۔


 

 



[1]...سبع سنابل ،سنبلۂ سوم در برکت قناعت و توکل و تبتل، صفحہ:89 مفصلًا۔