Book Name:Nigahon Ki Hifazat Kijiye
اُس کے چہرے اور ہتھیلی کی طرف نظر کرنا جائز ہے کیونکہ اس کی ضَرورت پڑتی ہے کہ کبھی اس کے مُوافِق یا مخالِف شہادت(گواہی)دینی ہوتی ہے یا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اگر اسے نہ دیکھا ہو تو کیونکر گواہی دے سکتا ہے کہ اس نے ایسا کیا ہے۔ اس کی طرف دیکھنے میں بھی وُہی شرط ہے کہ شَہوت کا اندیشہ نہ ہو اور یوں بھی ضَرورت ہے کہ(آج کل گلیوں بازاروں میں) بَہُت سی عورَتیں گھر سے باہَر آتی جاتی ہیں لہٰذا اس سے بچنا بھی دشوار ہے ۔ بعض عُلَما نے قدم کی طرف بھی نظر کو جائز کہا ہے۔مزید فرماتے ہیں:اَجْنَبِيَّہ عورت کے چہرہ کی طرف اگرچِہ نظر جائز ہے جب کہ شَہوت کا اندیشہ نہ ہو مگر یہ زمانہ فتنے کا ہے اِس زمانے میں ایسے لوگ کہاں جیسے اگلے زمانے میں تھے لہٰذا اِ س زمانے میں اس کو(یعنی چہرے کو) دیکھنے کی مُمانَعَت کی جائے گی مگر گواہ و قاضی کے لیے کہ بوجہِ ضَرورت ان کے لیے نظر کرنا جائز ہے۔(پردے کے بارے میں سوال جواب،ص۳۰)
یاد رہے!ایک مسلمان کے لئے اس بات کا علم حاصل کرنا ضروری ہے کہ اسلام نے اس کو کن عورتوں سے پردہ کر نے کا حکم دیا ہے اور کن عورتوں سے پردہ نہ کرنے کی اجازت دی ہے ۔آئیے! سنتے ہیں کہ مرد کا کن کن عورتوں سے پردہ ہے چنانچہ
امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہفرماتے ہیں:مرد کا اپنی مُمانی،چچی،تائی،بھابھی اور اپنی زوجہ کی بہن وغیرہ رشتے داروں سے پردہ ہے۔ مُنہ بولے بھائی بہن،منہ بولے ماں بیٹےاورمنہ بولے باپ بیٹی میں بھی پردہ ہے حتّٰی کہ لے پالک بچہ(جب مرد و عورت کے مُعامَلات سمجھنے لگے تو)اس سے بھی پردہ ہے البتّہ دودھ کے رشتوں میں پردہ نہیں مَثَلاً