رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی القاب نوازی

باتیں میرے حضور کی

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی القاب نوازی

*مولاناحافظ حفیظ الرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2024

حضور نبیِّ رحمت، شمعِ بزمِ ہدایت، احمدِ مجتبیٰ، محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جہاں ایک عظیم پیغمبر، سیّدُ المرسلین اور محبوبِ ربُّ العزّت ہیں وہیں آپ انسانیت کے حقیقی محسن اور اہل کو اس کی اہلیت و شان کے مطابق نوازنے والے بھی ہیں، آپ کا نوازنا کئی طرح سے ہےمثلاً عہدہ و منصب کے اعتبار سے، ذمہ داری کے اعتبار سے اور نام کے اعتبار سے، اسی طرح نوازنے میں لقب سے نوازنا بھی آتا ہے۔ کسی کو پُکارنے یا لقب دینے کے تعلق سے جب ہم پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس حوالے سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بے مثال انداز ملتا ہے۔ آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں کئی صحابَۂ کرام کو القابات سے نوازا اور صحابَۂ کرام نے ان القابات کو دل و جان سے نہ صرف قبول کیا بلکہ کئی صحابہ کو ملا ہوا لقب ان کے نام سے زیادہ مشہور ہوگیا۔

القاب کیاہے؟ ”القاب“ جمع ہے ”لقب“ کی۔ لقب اصل نام کے علاوہ وہ نام ہوتا ہے جس میں کسی خوبی یا خامی کا پہلو نکلے۔([i])

دینِ اسلام میں کسی کو بُرے نام و لقب سے پکارنے کی ممانعت ہے جبکہ اچھے نام اور القابات سے پکارنا جہاں اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے وہیں مسلمانوں کی آپسی محبت کا سبب بھی ہے۔ اس حوالے سے دو احادیث ملاحظہ کیجئے: (1)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تین چیزیں تمہارے بھائی کے دل میں تمہاری سچی محبت کا باعث بنیں گی: (۱)جب تم اُسے ملو تو سَلام کرو (۲)مجلس میں اس کے لئے فراخی اور وسعت پیدا کرو اور (۳)اُسے اس کے پسندیدہ نام سے بلاؤ۔([ii]) (2)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ کسی شخص کو اس کے محبوب نام اور کُنْیَت سے بلایا جائے۔([iii])

آئیے! ذیل میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ القاب نوازی کی چند مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)عتیق: اس کا معنیٰ ہے: ”آزاد“۔ یہ وہ پہلا لقب ہے جو اسلام میں سب سے پہلے اس ہستی کو دیا گیا جسے دنیا ”صدیقِ اکبر“ کے نام سے جانتی ہے۔([iv]) حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سیّدُنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا: ”اَنْتَ عَتِیْقٌ مِّنَ النَّارِ یعنی تُو نارِ دوزخ سے آزاد ہے۔“ اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ کا یہ لقب ہوا۔([v])

(2)فاروق: حضرت سیِّدُنا ابوعَمرو و ذکوان رحمۃُ اللہ علیہما نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ”مَنْ سَمَّی عُمَرَ الْفَارُوْقَ؟ یعنی حضرت سیِّدُنا عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا؟“ فرمایا: ”نبیِّ کریم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے۔“([vi])

(3)مُحَدَّث:’’مُحَدَّث“ عربی زبان میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جسے صحیح اور درست بات کا الہام ہو۔([vii]) یہ لقب بھی حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو دیا گیا۔ اللہ پاک کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”پچھلی اُمتوں میں کچھ لوگ مُحَدَّث ہوتے تھے، اگر میری امت میں ان میں سے کوئی ہے تووہ بلا شبہ عمر بن خطاب ہے۔“([viii])

(4)مِفْتَاحُ الْاِسْلَام: یہ لقب بھی امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ رسالت سے عطا ہوا۔ ایک دفعہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت فاروقِ اعظم کو دیکھ کر مسکرادیئے اور ارشاد فرمایا: ”اے اِبنِ خطاب! تمہیں معلوم ہے میں کیوں مسکرایا؟“ عرض کیا: اللہ پاک اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: ”اللہ پاک نے عرفات کی رات تمہاری طرف شفقت و رحمت کی نظر فرمائی اور تمہیں ”مِفْتَاحُ الْاِسْلَام(یعنی اسلام کی چابی) قرار دیا۔“([ix])

(5)رفیق: یہ لقب حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ رسالت سے ملا، چنانچہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کا کوئی رفیق (ساتھی) ہوتا ہے میرے رفیق یعنی جنّت میں عثمان ہیں۔([x])

(6)اَسدُ الله: یہ لقب مولیٰ علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہکو بارگاہِ رسالت سے عطا ہوا۔ چنانچہ ایک موقع پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا: علی کہاں ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں یہاں ہوں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے قریب آؤ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قریب آئے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی کو اپنے مبارک سینے سے لگا کر دونوں آنکھوں کے در میان بوسہ دیا۔ صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر رخسار مبارک کی برکتیں لے رہے تھے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر بلند آواز سے فرمایا: اے مسلمانوں کے گروہ! یہ علی بن ابی طالب ہیں، مہاجرین و انصار کے سردار ہیں، میرے بھائی ہیں، میرے چچا کے لڑکے ہیں، میرے داماد ہیں، میرا خون ہیں، میرا گوشت ہیں، ابو سبطین ہیں، حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سرداروں کے والد ہیں، یہ وہ شخص ہے جس نے میرے غم اپنے ذمے لے لئے تھے۔ یہ اسدُ اللہ (اللہ کے شیر)، اللہ کی تلوار ہیں، ان کے دشمنوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ جو ان سے بیزار ہوگا اللہ اس سے بیزار ہوگا، میں بھی اس سے بیزار ہوں گا، جو یہاں موجود ہیں میری یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔([xi])

(7)امینُ الامت:یہ خوبصورت لقب اس ہستی کو عطا ہوا جو عشرۂ مبشرہ (جنّت کی خوشخبری پانے والے 10 صحابَۂ کرام) میں سے ہیں اور انہیں ابو عبیدہ بن جراح کہا جاتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔“([xii])

اہلِ نجران بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ”یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہمارے پاس ایک ایسا آدمی بھیج دیجئے جو امین (امانت دار) ہو۔“ ارشاد فرمایا: ”میں تمہارے پاس ایک ایسا امین بھیجوں گا جو ویسا ہی امین ہے جیسا اسے ہونا چاہئے۔“ تو لوگوں نے دیکھا کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔([xiii])

(8)حواری: یہ لقب پانے والے عظیم صحابی”حضرت زبیر بن عوام اور حضرت طلحہ “ ہیں۔ بخاری شریف میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:”ہر نبی کے حواری ہیں اور میرے حواری (مخلص دوست) زبیر بن عوام ہیں۔“([xiv])

ایک موقع پر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہکو بھی اس لقب سے نوازا ہے۔ چنانچہ  اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو جمع کر کے ارشاد فرمایا کہ آج رات میں نے جنّت میں تم سب کے مقام و مرتبہ کا مشاہدہ کیا۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سیِّدُنا ابو بکر صدیق، سیِّدُنا عمر فاروق، سیِّدُنا عثمانِ غنی، سیِّدُنا علی المرتضیٰ، سیِّدُنا طلحہ، سیِّدُنا زبیر بن عوام اور سیِّدُنا عبد الرحمٰن بن عوف علیہمُ الرِّضوان کا جنت میں مقام ومرتبہ بیان کیا اور حضرت طلحہ و زبیر بن عوّام رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا: ”اے طلحہ و زبیر! ہر نبی کے حواری ہیں اور میرے حواری تم دونوں ہو۔“([xv])

(9)طَیِّب و مُطَیَّب:یہ پیارا لقب پانے والے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما ہیں۔آپ قدیمُ الاسلام مؤمنین سے ہیں، اسلام کی وجہ سے آپ کو مکہ والوں نے بہت ہی دکھ دیئے تاکہ اسلام چھوڑ دیں،مشرکین ایک بار آپ کو آگ سے جلا رہے تھے اتفاقًا حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہاں سے گزرے تو آگ سے فرمایا: اے آگ عمار پر اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا جس طرح حضرت ابراہیم پر ہوئی تھی ۔([xvi])

مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”انہیں آنے کی اجازت دو، ”طیب و مطیب یعنی پاک و پاکیزہ شخص“ کو خوش آمدید۔([xvii])

(10)اسد اللہ و اسد رسولہ: نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے جنازے کے وقت ”اسد اللہ و اسد رسولہ“ کے لقب سے نوازتے ہوئے فرمایا: يَاحَمْزَةُ يَاعَمَّ رَسُوْلِ اللهِ وَ اَسَدَ اللهِ وَ اَسَدَ رَسُوْلِهٖ، يَاحَمْزَةُ يَافَاعِلَ الْخَيْرَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاكَاشِفَ الْكَرَبَاتِ، يَاحَمْزَةُ يَاذَابًّا عَنْ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم یعنی اے حمزہ! اے رسول الله! کے چچا، الله اور اس کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائیوں میں پیش پیش رہنے والے! اے حمزہ! اے رنج و ملال اور پریشانیوں کو دور کرنے والے! اے حمزہ! رسولُ اللہ کے چہرے سے دشمنوں کو دور بھگانے والے!([xviii])

(11) سَیّدُالْمُؤذِّنِیْن: یہ لقب سنتے ہی جو شخصیت ذہن میں آتی ہے دنیا اس کو ”بلال حبشی“ کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو نہ صرف مؤذنِ رسول ہونے کا شرف حاصل ہے بلکہ سَیّدُالْمُؤذِّنِیْن کا لقب ذبانِ مصطفےٰ سے عطا ہوا ہے۔ چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نِعْمَ الْمَرْءُ بِلَالٌ وَلَا يَتْبَعُهُ اِلَّا مُؤْمِنٌ، وَهُوَ سَيِّدُ الْمُؤَذِّنِينَ یعنی بلال ایک اچھا آدمی ہے، اس کی پیروی صرف مؤمن ہی کرتا ہے اور وہ مُؤَذِّنوں کا سردار ہے۔([xix])

(12) الصَّادِقُ البَار: حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اس لقب سے نوازا گیا جو کہ ان کے سچا اور نیک ہونے کی مُہر ہے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے خود حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنی ازواج سے فرماتے سناکہ جو شخص میرے بعد اپنی دولت سے تمہاری بھر پور خدمت کرے گا وہ الصَّادِقُ البار (سچا اور نیک) بندہ ہے۔ پھر (یہ لقب عطا فرمانے کے بعد) حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کے لئے دعا کی: اے اللہ! عبد الرحمٰن بن عوف کو جنّت کے سلسبیل سے سیراب فرما۔([xx])

(13)سیفُ اللہ: موئے مبارک کو اپنے سر کا تاج بنانے والے، عمر بھر موئے مبارک کی برکتوں سے مالامال ہونے والے، دشمنانِ اسلام کے خلاف بہادری اور شجاعت دکھانے والے جلیلُ القدر صحابیِ رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ زندگی کا سب سے روشن باب جہاد فی سبیلِ اللہ ہے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ان کے ذوقِ جہاد اور بہادرانہ کارناموں کی وجہ سے ”سیفُ اللہ“ کا لقب عطا فرمایا۔ چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے: نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت خالد بن ولید کے پاس سے گزرے تو حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت ابو ہریرہ نے عرض کی: خالد بن ولید ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ سَيْفٌ مِّنْ سُيُوفِ اللَّه یعنی خالد بن ولید اللہ کا کتنا اچھا بندہ ہے، یہ اللہ پاک کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔([xxi])

(14)ذوالبجادین: یہ لقب پانے والے صحابی وہ ہیں کہ جب ان کو والدہ اور برادری کے لوگوں کی طرف سے سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری دینے سے روکا گیا تو انہوں نے کھانا پینا بند کردیا۔ جب آپ کی والدہ کو خوف ہوا کہ بھوک کی وجہ سے انتقال نہ ہوجائے تو آپ کو جانے کی اجازت دے دی۔([xxii]) آپ رضی اللہ عنہ مدینے پہنچ کر مسجدِ نبوی شریف میں ٹھہر گئے،جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نمازِ فجر کیلئے تشریف لائے اور آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو پوچھا: تم کون ہو؟ عرض کی: میرا نام عبدُ العزّیٰ ہے، میں فقیر اور مسافر ہوں، آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ کی صحبت میں رہنا چاہتا ہوں، ارشاد فرمایا: تمہارا نام عبدُاللہ اور تمہارا لقب ذُوالْبِجَادَیْن ہے، ہمارے گھر کے قریب ہمارے پاس رہا کرو۔([xxiii])

(15)سیّدُ الانصار: یہ لقب حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا ہے۔ یہ بارگاہِ رسالت میں کاتبِ وحی تھے اوریہ اُن چھ صحابہ میں سے ہیں جو عہدِ نبوی میں پورے حافظِ قراٰن ہوچکے تھے اور حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی موجودگی میں فتوے بھی دیتے تھے۔ صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم ان کو سیّدُ القُرَّاء (سب قاریوں کا سردار) کہتے تھے۔ دربارِ نبوت سے ان کو سیّدُ الانصار (انصار کا سردار) کا خطاب ملا تھا۔([xxiv])

حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں عید کے دن رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر تھا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سَیِّدُ الْاَنْصار کو میرے پاس بلاؤ تو لوگوں نے جس ہستی کو بلایا وہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ہی تھے۔([xxv])

(16)سفینہ: یہ لقب پانے والے صحابی کا نام ”مہران“ تھا ان کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملا ہوا لقب ”سفینہ“ ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اس کو اپنا نام ہی بنا لیا اور جب بھی ان سے ان کا اصل نام پوچھا جاتا تو بتاتے نہیں تھے بلکہ کہتے: میرا نام رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سفینہ رکھا ہے۔ خود ہی بیان کرتے ہیں: میں ایک سفر میں حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تھا۔ صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جب کوئی تھکتا اپنی تلوار، ڈھال اور تیر مجھے دے دیتا، یہاں تک کہ میرے پاس بہت سا سامان جمع ہوگیا، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے دیکھا تو ارشاد فرمایا: تم سفینہ (جہاز) ہو۔ اس روز اگر میں ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات اونٹوں کا بوجھ بھی اُٹھا لیتا تو مجھ پر بھاری نہ ہوتا۔ جب آپ رضی اللہ عنہ سے آپ کا نام پوچھا جاتا تو کہتے: میں بالکل نہیں بتاؤں گا، میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرا لقب سفینہ رکھا ہے۔([xxvi])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



([i])التعریفات للجرجانی،ص136

([ii])جمع الجوامع،4/141، حدیث:10814

([iii])جمع الجوامع، 14/339،حدیث:10905

([iv])الریاض النضرۃ،1/77

([v])تاریخ الخلفاء، ص22

([vi])اسد الغابۃ،4/162

([vii])فیضانِ فاروقِ اعظم،53

([viii])بخاری،2/527،حدیث:3689

([ix])ریاض النضرۃ،1/308

([x])ترمذی، 5/390، حدیث: 3718

([xi])شرف المصطفی لأبی سعید الخرکوشی، 6/32

([xii])بخاری،2/545،حدیث:3744

([xiii])بخاری،2/546،حدیث:3745

([xiv])بخاری،2/539،حدیث:3719

([xv])مسند بزار،8/278،حدیث:3343

([xvi])طبقات ابن سعد،3/188

([xvii])ابن ماجہ،1/98،حدیث:146

([xviii])زرقانی علی المواہب، 4/470

([xix])معجم کبیر،5/209،حدیث:5119

([xx])مسند احمد،10/189، حدیث:26621

([xxi])ترمذی، 5/456،حدیث:3872

([xxii])دیکھئے:سیر سلف الصالحین،ص247

([xxiii])مدارج النبوۃ،2/351

([xxiv])جامع الاصول،12/186

([xxv])سیر اعلام النبلاء،3/247

([xxvi])مسندامام احمد،8/215،حدیث:21987-21984۔


Share