انداز میرے حضور کے
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ خیر خواہی
*مولانا ناصرجمال عطاری مدنی
ماہنامہ ستمبر 2024
اللہ کریم کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یوں تو ہر ادا ہمارے لئے خیر و بھلائی والی ہےلیکن آپ کے اندازِ خیر خواہی کی بات ہی نرالی ہے جس سے خود اللہ پاک کا سچاکلام قراٰنِ پاک ہمیں متعارف (Introduce)کرواتاہےتاکہ ہم آپ سے دل و جان سے محبت کریں اور آپ کا اندازِ خیرخواہی اپنا کر اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنائیں۔
سب سے پہلے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک نے کس طرح رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اندازِ خیر خواہی کو بیان فرمایا ہے؟ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
(حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ)
ترجمہ: تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے۔ ([i])
امام فخرُالدّین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ آیت کے اِس حصّے کی یوں وضاحت فرماتے ہیں: یعنی وہ دنیا و آخرت میں تمہیں بھلائیاں پہنچانے پر حریص ہیں۔([ii])
حکیمُ الامّت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: (حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ )کامعنیٰ یہ ہیں کہ کوئی تو اولاد کے آرام کا حریص ہوتا ہے کوئی مال کا، کوئی عزت کا،کوئی پیسے کا، کوئی کسی اور چیز کا مگر محبوب علیہ السّلام نہ اولاد کے، نہ اپنے آرام کے، (بلکہ)تمہارے حریص ہیں اسی لئے ولادتِ پاک کے موقع پر ہم کو یاد کیا، معراج میں ہماری فکر رکھی،بروقتِ وفات ہم کو یاد فرمایا، قبر میں جب رکھا گیا تو عبد اللہ بن عباس نے دیکھا کہ لب ِ پاک ہل رہے ہیں غور سے سنا تو امّت کی شفاعت ہورہی ہے،رات رات بھر جاگ کر اُمت کے لئے رو رو کر دعائیں کرتے ہیں کہ خدایا!اگر تو اُن کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو بخش دے تَو تُوعزیز اور حکیم ہے۔ قیامت میں سب کو اپنی اپنی جان کی فکر ہوگی مگر محبوب علیہ السّلام کو جہان کی۔ سب نبی نفسی نفسی فرمائیں گے اور محبوب علیہ السّلام امّتی امّتی۔([iii])
آئیے! ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کس انداز سے ہماری خیرخواہی فرمائی ہے:
اعلانِ نبوت سے پہلےاندازِخیرخواہی:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اعلانِ نبوت سے پہلے بھی لوگوں کے ساتھ خیر و بھلائی کا انداز اختیار فرمایا، وہ انداز کس نوعیت کا تھا؟ اِس سلسلے میں اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا کے چند جملے اندازِ مصطفیٰ کو واضح کرتے ہیں چنانچہ جب پہلی وحی اُتری تو اُس موقع پرآپ نے خیرخواہی پرمشتمل یہ خوبیاں بیان فرمائیں: بِلا شُبہ آپ صِلہ رحمی (خونی رشتوں سے اچھا سلوک) فرماتے ہیں، بوجھ اٹھاتے، جو چیزنہیں ہوتی وہ عطا فرماتے،مہمان نوازی کرتے اور راہِ حق میں مصائب برداشت کرتے ہیں۔ ([iv])حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا کی عرض کا مطلب یہ ہے کہ ’’آپ رشتہ داروں پر ہر طرح کا احسان کرتے ہیں بلکہ آپ کا احسان رشتہ داروں کے ساتھ خاص نہیں،ہر شخص کو عام ہے اور یہی نہیں کہ آپ صرف دادودہش کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو عمدہ تعلیم اور اچھے اخلاق کی تلقین بھی کرتے ہیں۔([v])یاد رہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہ اندازِ خیرخواہی حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا نےکم وبیش پندرہ سال دیکھے،اس لحاظ سے آپ کے یہ جملے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
اعلانِ نبوت کے بعد اندازِ خیرخواہی:رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو جو لوگ آپ کو صادق و امین مانا کرتے تھے، آپ کی جان کے دشمن ہوگئے،بہت زیادہ تکلیفیں پہنچانے لگے، ایک موقع پر رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خیرخواہی کا انداز اِس طرح ہوا کہ لبِ مصطفےٰ پر یہ دعا آئی: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَیعنی اےاللہ!میری قوم (کےاِس تکلیف دینے کےگناہ)کو معاف کردے یہ نہیں جانتی۔([vi])
جب بارگاہِ رسالت میں دشمنوں کے خلاف دعا کرنے کی عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا: اِنِّي لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا وَاِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً یعنی مجھے لعنت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا، مجھے تو رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔([vii])
اِس اندازِ خیرخواہی کااثر ایک واقعے سےملاحظہ کیجئے چنانچہ حضرت ثمامہ بن اُثال رضی اللہُ عنہ ایمان لاکر بارگاہِ رسالت میں یوں عرض کرنے لگے: خدا کی قسم! پہلے میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرہ سے زیادہ ناپسند نہیں تھا لیکن آج آپ کا وہی چہرہ مجھے سب چہروں سے زیادہ پسند ہے۔ خدا کی قسم!میرے نزدیک کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ ناپسند نہ تھا مگر اب آپ کا وہی دین میرے نزدیک سب دینوں سے زیادہ پسند ہے۔ خداکی قسم! میرے نزدیک کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مبغوض نہ تھا لیکن اب آپ کا وہی شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔([viii])
فتحِ مکہ کے موقع پر رسول ِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دشمنوں کو لایا گیا توآپ نے اُن سے پوچھا:کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیاکروں گا؟عرض کی:اےکرم نواز بھائی،اے کرم نواز بھائی کے بیٹے!(آپ ہمارےساتھ) بھلائی (کریں گے۔) آپ نے ارشاد فرمایا: جاؤ! تم آزاد ہو۔([ix])
حضرت عبد اللہ بن اوفی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کثرت سے ذکر کرتے، فضول بات نہ کرتے، لمبی نماز ادا فرماتے،خطبہ مختصردیتے، بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ چلنے میں عار محسوس نہ کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کی ضرورت پوری کردیتے۔([x])
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اُمّت کے ساتھ اندازِ شفقت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے: حضرت اُبی بن کعب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہےحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے مجھے تین سوال عطا فرمائے، میں نے دو بار (تو دنیا میں) عرض کرلی: اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ وَاَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ لِیَوْمٍ یَرْغَبُ اِلَیَّ الْخَلْقُ کُلُّہُمْ حَتّٰی اِبْرَاہِیمُ یعنی اے اللہ! میری اُمّت کی مغفرت فرما، اے اللہ! میری اُمّت کی مغفرت فرما۔ اور تیسری عرض اس دن کے لئے اٹھا رکھی جس میں مخلوقِ الٰہی میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ (اللہ تعالیٰ کے خلیل) حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی میرے نیاز مند ہوں گے۔([xi])
یہ بھی رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات مبارک کی خیر خواہی ہی ہے کہ آپ کی بدولت گمراہوں کو ہدایت ملی،مظلوم و بے کس کو سہار ا نصیب ہوا،جن لوگوں کے حقوق پامال ہورہے تھے اُن کو اندازِمصطفےٰ کی برکت سے حقوق کا تحفظ ملا، آپ نے لوگوں کو بتایا کہ اللہ ایک ہے، دل میں اترجانے والے انداز کے ذریعے تعظیمِ والدین کا درس دیا،صلۂ رحمی کرناسکھائی، قطع رحمی سے روکا۔ دل کی بستی کو ربّ کی یاد سے آباد کرنا سکھایا، وہ تمام چیزیں جو ہماری سوچ کو خراب اور عمل کوکمزور کرتی ہیں اُن کی نشاندہی فرمائی اور اِن سے چھٹکارا پانے کا طریقہ بھی سکھایا۔
جن کو اللہ نے نوازا ہے اُن کو خرچ کرنے کا طریقہ اور غریب و نادار لوگوں کااحساس کرنے کا سلیقہ سکھایا تاکہ یہ لوگ محبِ فقَرا و مساکین بن جائیں اور جن کے پاس کچھ نہیں اُن کوصبرو شکر کاسہارا لے کر ڈٹے رہنے اور جمے رہنے کا گُر بتایااورکسب و کوشش کرتے رہنے کی تلقین فرمائی۔یہ اور اِس طرح کے اُمور کا تعلق دنیا سے ہے اور وہ اُمور جن کا تعلق آخرت سے ہے اُس میں شفقت و کرم نوازی فرمائیں گے۔
اِدھر اُمّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پر
نِرالا طَور ہوگا گردشِ چشم شفاعَت کا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث، المدینۃ العلمیہ كراچی)
Comments