احکامِ تجارت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ ستمبر 2024
(1) وارنٹی کلیم کرنے کی شرعی حیثیت ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی بھی چیز کی وارنٹی کلیم کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ بطور احسان ایک اختیاری وعدہ ہے کہ چاہے تو پورا کیا جائے چاہے تو نہیں؟یا پھر اس شرط کی پابندی کرنا دکاندار یا کمپنی پر لازم ہے ؟ وارنٹی کلیم کرنے سے انکار کردیا تو کیا حکم ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: وارنٹی کی شرط کے ساتھ خرید و فروخت کرنا عرف کی وجہ سے جائز ہے، اور جب وارنٹی کی شرط کے ساتھ کسی چیز کی خرید و فروخت کی جائے تو بیچنے والے پر وارنٹی کلیم کرنا شرعاً لازم ہے، اگر وہ وارنٹی کلیم نہیں کرتا تو خریدار جائز طریقے سے اسے وارنٹی کلیم کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
بیع میں وارنٹی کی شرط عرف کی وجہ سے جائز ہے۔ جیساکہ بہار شریعت میں ہے: ”شرط ایسی ہے جس پر مسلمانوں کا عام طور پر عمل در آمد ہے جیسے آج کل گھڑیوں میں گارنٹی سال دو سال کی ہوا کرتی ہے کہ اس مدت میں خراب ہوگی تو درستی کا ذمہ دار بائع ہے، ایسی شرط بھی جائز ہے۔(بہار شریعت،2/701)
جو شرط تعامل کی وجہ سے جائز ہو اس پر عمل کرنا شرعاً لازم ہے۔در مختار اور رد المحتار میں ہے: ”یصح البیع بشرط۔۔۔ جری العرف بہ۔۔۔ استحسانا للتعامل، ای یصح البیع ویلزم الشرط“ ترجمہ: ایسی شرط کے ساتھ بیع کرنا جس پرعرف جاری ہو تعامل کی وجہ سے استحساناً جائز ہے، یعنی بیع درست ہوگی، اور شرط لازم ہوگی۔(ردالمحتار،7/286)
بیچنے والا وارنٹی کلیم نہ کرے تو اسے اس پر مجبور کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ بائع کے وعدہ لازمہ پورا نہ کرنے کی صورت میں خریدار کے لیے حقِ جبر ثابت ہوتا ہے، تو بیع کی شرط پوری نہ کرنے کی صورت میں خریدار کو بدرجہ اولیٰ حقِ جبر حاصل ہوگا۔
ردالمحتار میں جامع الفصولین کے حوالے سے ہے: ”لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العدۃ جاز البيع ولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازماً لحاجة الناس“ ترجمہ: اگر بائع اور مشتری نے بغیر شرط کے بیع کا ذکر کیا پھر بطورِ وعدہ شرط کا ذکر کیا تو بیع صحیح ہے اور وعدہ پورا کرنا لازم ہے کیونکہ وعدوں کو پورا کرنا کبھی ضروری ہوتا ہے لہٰذا لوگوں کی حاجت کے لئے اس کا پورا کرنا ضروری قرار دیا جائے گا۔(ردالمحتار علی الدرالمختار،7/282)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)کسی نے مارکیٹ سے چیز منگوائی تو
اس پر اپنا کمیشن رکھنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب میں اپنے کام سے مارکیٹ جاتا ہوں تو مجھ سے بعض اوقات جاننے والے بھی کچھ چیز منگوالیتے ہیں میں انہیں لاکر دے دیتا ہوں کیا میں اس پر کمیشن رکھ سکتا ہوں؟ یعنی جتنے پیسوں کی چیز آئی ہے اس سے کچھ پیسے زیادہ لے سکتا ہوں؟ جبکہ میں کمیشن پر کام نہیں کرتا اور میرا ان سے پیسے رکھنا طے نہیں ہوتا۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں جب آپ مارکیٹ جاتے ہیں اور آپ سے کوئی جاننے والا مارکیٹ سے چیز لاکر دینے کا کہتا ہے تو اسے چیز لاکر دینے میں آپ کی حیثیت وکیل کی ہے نہ کہ کمیشن ایجنٹ کی اوراس صورت میں چیز لاکر دینے میں کمیشن یعنی چیز کی قیمت سے زیادہ پیسوں کےآپ حقدار نہیں ہیں اور از خود کمیشن کے نام پرپیسے رکھ لینا، ناجائز و گناہ ہے کہ یہ منگوانے والےکےساتھ دھوکہ دہی ہے جو کہ حرام وگناہ ہے۔ اگر معاوضہ لینا چاہتے ہیں تو صراحت کرنا پڑے گی اور معاوضے کی مقدار طے بھی کرنی ہوگی ورنہ یہ معاملہ دھوکہ ہوگا۔
دھوکہ دینے والے کے متعلق رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:’’من غشنا فلیس منا‘‘ یعنی: جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم،1/70)
درر الاحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:”لو اشتغل شخص لآخر شيئا ولم يتقاولا على الاجرة ينظر للعامل ان كان يشتغل بالاجرة عادة يجبر صاحب العمل على دفع اجرة المثل له عملا بالعرف والعادة، وإلا فلا“یعنی:ایک شخص دوسرے کے لیے کسی چیز میں مشغول ہوا اور ان کے درمیان اجرت سے متعلق کوئی بات نہ ہوئی، تو کام کرنے والے کو دیکھا جائے گا اگروہ عادۃً اجرت کے ساتھ کام کرتا ہے تو جس کے لیے کام کیا ہے اسے اجرتِ مثل دینے پر مجبور کیا جائے گا عرف و عادت کی وجہ سے، ورنہ نہیں۔
(درر الاحکام فی شرح مجلۃ الاحکام،1-3/46)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)بچوں کی لاٹری کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل بچوں کے لئے ایک لاٹری مارکیٹ میں آئی ہوئی ہے کہ پلاسٹک کے انڈے میں کچھ چاکلیٹ، کھلونے وغیرہ ہوتے ہیں، بچہ پیسے دے کر وہ انڈہ خریدتا ہے، اس انڈے میں کیا ہے، یہ معلوم نہیں ہوتا، پھر جب اس انڈے کو کھولا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں فلاں چاکلیٹ ہے یا فلاں کھلونا ہے یا اسی طرح کی اور کوئی چیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی لاٹری کی خرید وفروخت جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: ایسی لاٹری کی خرید و فروخت حرام ہے۔ خرید و فروخت میں شریعت مطہرہ کی طرف سے ایک تقاضا یہ ہے کہ جو چیز خریدی جارہی ہے، وہ معلوم ہو، اس میں جھگڑے کی طرف لے جانے والی جہالت نہ ہو، ایسی جہالت بیع کو فاسد کردیتی ہے۔ سوال میں موجود انڈے والی لاٹری میں جب یہ معلوم ہی نہیں کہ انڈہ کھولنے کے بعد اندر سے کیا چیز نکلے گی، کتنی مالیت کی نکلے گی تو یہاں بھی خریدی گئی چیز میں جہالتِ کثیرہ پائی گئی، لہٰذا مذکورہ انڈے والی لاٹری کی خرید و فروخت ناجائز و گناہ ہے۔ اگر انڈے والی لاٹری کی یہ صورت ہو کہ بعض خالی نکلیں گے اور پیسے واپس نہیں ملیں گے اور بعض میں کچھ نہ کچھ مالیت کی چیز نکلے گی تو پھر سرے سے یہ خرید و فروخت ہی نہیں بلکہ یہ جوا ہے اور جوا، ناجائز و حرام ہے۔
بچوں کے لئے آئے دن کوئی نہ کوئی اس طرح کی لاٹری مارکیٹ میں آئی ہوتی ہے، جس کو فروخت کرکے دوکاندار خود گناہ کما رہے ہوتے ہیں اور بچوں میں جوا وغیرہ گناہوں کی عادت پڑنے کا سامان کر رہے ہوتے ہیں، مسلمانوں کوچاہئے کہ اس طرح کی تمام غیر شرعی لاٹریاں فروخت کرنے سے بچیں اور اپنے بچوں کو بھی ان کی خریداری سے روکیں اور بچپن ہی سے خرید و فروخت کے جائز طریقوں کی آگاہی فراہم کریں۔
جوئے کی مذمت بیان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰))
ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو! شراب اور جُوا اور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔(پ7، المائدۃ:90)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
مبسوط میں ہے:’’تعلیق استحقاق المال بالخطر قمار، والقمار حرام فی شریعتنا‘‘ یعنی کسی مال کے حصول کے لئے اپنے مال کو خطر ے پر پیش کرنا جُوا ہےاور جُوا ہماری شریعت میں حرام ہے۔ (مبسوط سرخسی،11/20)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(4)سودی بینک میں اے سیAC ریپئر
کرنے کی نوکری کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ سودی بینک میں ACاے سی ریپئر(Repair) کرنے کی جاب کرنا کیسا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: جاب چاہے سودی بینک میں ہو یا کسی اور سودی ادارے میں، اس کا اصول یہ ہے کہ جس جاب میں گناہ کے کام کرنے پڑیں یا گناہ کے کاموں میں براہِ راست معاونت کرنی پڑے، ایسی جاب کرنا، جائز نہیں مثلاً کسی شخص کاکام سودی امور کاحساب کتاب رکھنا یا گواہ بننا ہو وغیر ذٰلک۔ان افراد کا یہ کام جائز نہیں ہوگا۔اس کے بر خلاف جس جاب میں گناہ کے کاموں میں براہِ راست معاونت نہ ہو ایسی جاب کرنا، جائز ہے مثلاً سیکیورٹی گارڈ (Security Guard)، الیکٹریشن (Electrician)، ڈرائیور(Driver)وغیرہ۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کا سودی بینک میں اے سی AC ریپئر(Repair) کرنے کا کام کرنا، جائز ہے کہ اس میں سودی کاموں میں براہِ راست معاونت نہیں پائی جارہی۔
سود کا کام کرنے والے دوکانداروں کے پاس جاب کے جائز و ناجائز ہونے سے متعلق شیخ الاسلام والمسلمین مجد ددین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:’’ملازمت اگرسود کی تحصیل وصول یا اس کا تقاضا کرنا یا اس کا حساب لکھنا، یا کسی اور فعلِ ناجائز کی ہے تو ناجائز ہے۔۔۔اور اگر کسی امر جائز کی نوکری ہے تو جائز ہے۔“ (فتاوى رضویہ،19/522)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت دار الافتاء اہل سنت نور العرفان، کھارا در کراچی
Comments