علما کا حق پہچانو

حدیث شریف اور اس کی شرح

عُلَما کا حَق پہچانو!

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر2022

حضور نبیِّ رحمت ، شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لَيْسَ مِنْ اُمَّتِي مَنْ لَّمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا ، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا ، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهٗ یعنی وہ میرا اُمتّی ہی نہیں جو ہمارے بڑے کی عزّت نہ کرے ، چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے۔[1]

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس فرمانِ عظمت نشان میں تین طرح کے افراد کے بارے میں ناراضی کا اظہار فرمایا اور انہیں تنبیہ فرمائی ہے :  ( 1 ) بڑوں کی عزّت نہ کرنے والا  ( 2 ) چھوٹوں پر شفقت و مہربانی نہ کرنے والا  ( 3 ) اور عُلَما کا حق نہ پہچاننے والا۔

پہلے دو افراد کے بارے میں ایک اور حدیثِ پاک کی شرح کے تحت  ” ماہنامہ فیضانِ مدینہ “  ستمبر2022ء میں تفصیلی کلام گزرا ہے جبکہ تیسرے فرد کے بارے میں اس حدیثِ پاک کی شرح ملاحظہ کیجئے :

عُلما کا حق نہ پہچاننے والا ہم میں سے نہیں!عُلَمائے کرام کا احترام کرنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا ، یہ اللہ پاک کی دی ہوئی توفیق و ہدایت سے ہی ممکن ہے اور یہ دونوں کام نہ کرنا رسوائی ، خسارے اور نافرمانی کاسبب ہے۔[2]رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے بھی عُلما کی عزّت و عظمت بیان کی جاتی رہی ہے چنانچہ حضرت ابراہىم علیہ السّلام سے ارشاد ہوا : اے ابراہىم! مىں عَلِىم ہوں ، ہر عَلِىم کو دوست رکھتا ہوں۔[3] یعنى علم مىرى صفت ہے اور جو مىرى اِس صفت  ( علم )  پر ہے وہ مىرا محبوب ہے۔[4] یوں ہی عالمِ باعمل کی عظمت بیان کرتے ہوئے حضرت عىسٰی علیہ السّلام  فرماتے ہىں : جس نے علم سیکھ کر اس پر عمل کیا اور علم پڑھایا اسے آسمان کی سلطنت مىں عظىم شخص کہتے ہىں۔[5]

جب رسولُ اللہ تشریف لائے تو علمائے کرام کی عظمت و شان بیان فرمائی تاکہ لوگ اِس عظمت کو سامنے رکھ کر علمائے کرام کے حقوق کا خیال رکھیں اور اِن سے علم حاصل کریں۔ عظمتِ عُلما کا مضمون جن احادیث میں موجود ہے ، اُن میں سے چند یہ ہیں :

 * رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : مَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَيۡرًا یُّفَقِّھْهُ فِى الدِّيۡنِ یعنی اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائى کا ارادہ کرتا ہے اسے دىن مىں دانش مند  ( دین کی سمجھ عطا )  کرتا ہے۔[6] کوئى آدمى اپنے انجام سے واقف نہىں ہوتا سوائے فقہائے کرام  کے ،  ( کیونکہ وہ )  سچی خبریں دینے والے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتانے سے جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ اللہ پاک کا ارادہ کیا ہے۔[7]

 * بلاشبہ اللہ اور اُس کے فرشتے اور سب زمىن والے اورسب آسمان والےىہاں تک کہ چىونٹى اپنے سوراخ مىں اور ىہاں تک کہ مچھلى ىہ سب درود بھىجتے ہىں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کوبھلائى سکھاتاہے۔[8]

 * بےشک عالم کے لئے استغفار کرتے ہىں سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ مچھلىاں پانى مىں اور بےشک عالم کی عابد پر اىسی فضیلت ہے جىسی چودھوىں رات کے چاند کى فضیلت سب ستاروں پر اور بےشک عُلما وارث ، انبىاء کے ہىں اور بےشک پىغمبروں نے درہم ودىنار مىراث نہ چھوڑى ( بلکہ )  علم کو مىراث چھوڑا ہےپس جو علم حاصل کرے اُس نے بڑا حصہ حاصل کىا۔[9]

 * اىک فقىہ شىطان پر ہزار عابدوں سے زىادہ بھارى ہے۔[10] وجہ اُس کى ظاہر ہے کہ عابداپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم اىک عالَم ( بہت سے لوگوں )  کو ہداىت فرماتا ہے اور شىطان کے مکر وفرىب سے آگاہ کرتا ہے۔[11]

حقوق ِعلما کے سلسلے میں امیرِ اہلِ سنّت کا انداز : امیرِ اہلِ سنّت فرماتے ہیں : مسائل پڑھنے  کا شوق ، مسائل سیکھنے کا شوق ، عُلَما سے پوچھنے کا شوق ، کراچی کے دُور دراز علاقوں میں جاکر ان کے پاس حاضری دینا اور مسائل پوچھنا یہ میرا پُرانا مشغلہ رہا ہے ، میں بظاہر چھوٹے سے مسئلے کے لئے بھی  ” مفتی وقارُالدّین رحمۃُ اللہ علیہ “   کے پاس چلاجاتا تھا ، اسی طرح  ” دارُالعلوم اَمجدیہ “  جاتا تھا ، علما سے پوچھتا تھا ، احتیاطاً سینکڑوں کہتا ہوں ورنہ مفتی وقارُالدّین رحمۃُ اللہ علیہ سے شاید میں نے ہزاروں مسائل پوچھے ہوں گے ، میں ان کی بارگاہ میں جاکر بیٹھا رہتا تھا ، ( بسااوقات )  ہم دو چار افراد مل کر جاتے تھے ،  ( کراچی کے علاقے )  ٹاور سے ہم بس میں بیٹھتے ، ان کے مکانِ عظمت نشان تک پہنچنے کے لئے تقریباً سوا گھنٹہ لگتا تھا ، پھر واپسی میں ہمیں بارہا  ( علاقہ )  ” صدر “ تک بس ملتی تھی ، اس کے بعد وہاں  سے  ” کھارادر “  پیدل آتے تھے ، کبھی  کھارادر تک کے لئے دوسری بس بھی مل جاتی تھی اور رات  زیادہ ہوگئی  تو کسی سے لفٹ لے لی۔اَلحمدُلِلّٰہ! مجھے مسائل سے دلچسپی اور انہیں سیکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا ، میں مسائل پوچھتا رہتا تھا ، اگرچہ اب  سیکورٹی وغیرہ کی مجبوریوں کے سبب میرے لئے مختلف مقامات پر پہنچ کر علمائے کرام  کی بارگاہوں میں حاضری دینے کی صورت نہیں رہی ، تاہَم کتابوں کے بغیر میرا گزارا اب بھی نہیں ، نیز پوچھتا تو میں اب بھی رہتا ہوں ، دعوتِ اسلامی کے دارُالافتاء اہلِ سنّت کے مفتیانِ کرام سے باری باری موقع بَہ موقع مسائل پوچھنے کا میرا سلسلہ جاری  رہتا ہے۔اَلحمدُلِلّٰہ الکریم! ہم علمائے کرام سے مَرْبُوط  ( یعنی ان سے رابطے میں )  ہیں ، جن لوگوں کو علمائےکرام میں دلچسپی نہیں ہے اور ان سے دینی مسائل دریافت کرنے کا جذبہ نہیں ہوتاوہ لوگ اکثر غلطیاں کرتے ہوں گے جن کا پتا ہوسکتا ہے کہ مرنے کے بعد ہی چلے۔ اللہ کریم ہمیں نفع دینے والا علم عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  [12]

عُلَماکےحق کاخیال یوں کیجئے : ( 1 ) عُلَما سے بدتمیزی ہرگز مت کیجئے ( 2 ) علما سےمسئلہ ضرور پوچھئے مگر اس کے لئے مناسب وقت ، بہتر جگہ ، کم الفاظ کے ساتھ مناسب انداز ِگفتگو کالحاظ ضرور رکھئے  ( 3 )  علمائے کرام کی بات کاٹنے ، دوران ِ گفتگو بیزاری ظاہر کرنے اور ناشائستہ گفتگو کرنے سے مکمل پرہیز کیجئے ( 4 ) علما سےبدگمان ہونےسےخودبھی بچئے اور دوسروں کو بھی بچائیے ( 5 ) عُلَما کی جو نصیحت خلافِ مزاج محسوس ہو اور اُسے قبول کرنے میں نفس رکاوٹ بن رہا ہو تو اِسے شامتِ نفس جانئے  ( 6 ) عُلَمائے کرام کے بارے میں جھوٹ بولنااور الزام تراشی کرنا بھی باعثِ ہلاکت ہے ، اس طرح کی کسی بھی ایکٹیویٹی سے مکمل گریز کیجئے   ( 7 ) اپنی بات کی اہمیت بڑھانے کے لئے علمائے کرام کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے بالکل پرہیز کیجئے ( 8 ) بلااجازتِ شرعی نہ کسی سنّی عالم کو اپنامخالف بنائیے ، نہ کسی سنّی عالم کی مخالفت کیجئے ( 9 )  علمائے کرام کےخلا ف سوشل میڈیا پرچلنے والی مہم کا کبھی بھی حصّہ نہ بنئےکہ یہ وہ چنگاری ہے جو عوام کو علمائے کرام سے دور کرنے کا سبب بن کر معاشرے میں کئی گناہوں کی آگ بھڑکا سکتی ہے ( 10 ) عُلَمائے کرام کی غیبت سننے اور کرنے سے ہر صورت میں بچئے۔

 اللہ کریم ہمیں بڑوں کا ادب کرنے ، چھوٹوں پر شفقت کرنے اور عُلَما کاحق پہچاننے کی تو فیق عطافرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ کراچی



[1] مکارم الاخلاق للطبرانی ، ص367

[2] التیسیر ، 2/331

[3] جامع بیان العلم وفضلہ ، ص70

[4] فیضانِ علم و علما ، ص20

[5] الزہد للامام احمد ، ص97 ، رقم : 330

[6] بخاری ، 1/ 43 ، حدیث : 71

[7] الاشباہ والنظائر ، ص337

[8] ترمذی ، 4/314 ، حدیث : 2694

[9] ابوداود ، 3/444 ، حدیث : 3641

[10] ترمذی ، 4/311 ، حدیث : 2690

[11] فیضان علم و علما ، ص18

[12] ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2022ء ملتقطاً۔


Share

Articles

Comments


Security Code