کتابِ زندگی
شَجَرۂ طریقت کیا ہوتا ہے ؟
*مولاناابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2022ء
بیعتِ طریقت خوش عقیدہ مسلمانوں کا معمول ہے ، یہ بات بڑی اہم ہے کہ کسی مسلمان کو مُرید بننے کے لئے کوئی خاص شرط پوری نہیں کرنا ہوتی لیکن جس کا یہ مُرید بن رہا ہے ، اس میں چار شرائط پوری ہونا ضروری ہیں۔ اعلیٰ حضرت مولانا امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ایسے شخص سے بیعت کاحکم ہے جو کم اَز کم یہ چاروں شرطیں رکھتاہو : اوّل ( First ) سُنّی صحیحُ العقیدہ ہو ، دُوُم ( Second ) علمِ دین رکھتا ہو ، سِوُم (Third ) فاسق ( مُعلِن ) نہ ہو ( ایک بار گناہِ کبیرہ کرنے والا یا گناہِ صغیرہ پر اِصرار کرنے والا فاسق ہوتا ہے اور اگر علی الاعلان کرے تو فاسق ِ معلن ہے ) ، چہارم ( Fourth ) اس کا سلسلہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم تک مُتَّصِل ( ملا ہوا ) ہو ، اگر ان میں سے ایک بات بھی کم ہے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کی اجازت نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔[1]
چوتھی شرط کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اور فتویٰ میں لکھتے ہیں : بعض لوگ بِلا بیعت محض بزعمِ وراثت (وارث ہونے کے گمان میں ) اپنے باپ دادا کے سجادے ( Seat ) پر بیٹھ جاتے ہیں یا بیعت تو کی تھی مگر خلافت نہ ملی تھی بلا اِذن ( اجازت ملے بغیر ) مرید کرنا شروع کردیتے ہیں یا سلسلہ ہی وہ ہو کہ قطع ( Cut ) کردیا گیا ، اس میں فیض نہ رکھا گیا لوگ براہِ ہوس اس میں اِذن و خلافت دیتے چلے آتے ہیں ، یاسلسلہ فی نفسہٖ اچھا تھا مگر بیچ میں کوئی ایسا شخص واقع ہواجو بوجہ انتفائے بعض شرائط ( یعنی کچھ شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے ) قابلِ بیعت نہ تھا اس سے جو شاخ چلی وہ بیچ میں سے منقطع ( Disconnected ) ہے ان صورتوں میں اس بیعت سے ہر گز اِتصال (Connection ) حاصل نہ ہوگا۔[2]
اے عاشقانِ رسول! چوتھی شرط یعنی سلسلۂ بیعت کا متصل ہونا ایسا ہی ہے جیسے حدیث کی سند میں راویوں کا سلسلہ متصل ہوتا ہے کہ اس راوی نے فلاں راوی سے سنا ، اس نے فلاں سے سنا ( علیٰ ھٰذا القیاس ) ، اسی کو اسناد کہتے ہیں اور اس کی بڑی اہمیت ہے ، حضرت امام عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہ علیہ جو اولیا ، عُلما ، محدثین اور فقہا کے امام ہیں ، فرماتے ہیں : اَلْاِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ وَلَوْلَا الْاِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَآءَ مَا شَآءَ یعنی اسناد دین سے ہے ، اگر اسناد کا سلسلہ نہ ہوتا تو جس کا جو دل چاہتا دین میں کہہ دیتا۔[3]
یہ اسنادِطریقت ، ایک شجرے کی صورت میں مرید کودی جاتی ہے تاکہ اسے معلوم ہو کہ طریقت میں اس کا تعلق کس کس بزرگ کے واسطے سے قاسمِ نعمت ، نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچتا ہے ، وہ جب جب اس سند کو پڑھتا ہے اس کا ذوق ترقی پاتا ہے کہ گویا وہ اپنے سلسلے کے بزرگوں کے دامن میں پناہ لئے ہوئے ہے پھر صالحین سے محبت اُخروی نعمتوں کے حُصول کا ذریعہ ہے ، حدیثِ پاک میں ہے : اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ یعنی آدمی اسی کے ساتھ ہوگاجس سے وہ محبت کرتا ہے۔[4]یہ شجرے نظم ونثر اور کئی زبانوں مثلاً اُردو ، عربی اور فارسی وغیرہ میں مرتب ہوتے ہیں۔ان شجروں کو مریدین پڑھنے کے ساتھ ساتھ حصولِ برکت کیلئے گھر یا دفتر کی دیواروں پر بھی آویزاں کرتے ہیں ، یا اپنی ڈائریوں میں لگا لیتے ہیں ، کارڈ کی شکل میں والیٹ یا جیب میں رکھتے ہیں ، ان مقاصد کے لئے ہرقسم کے سائز اور انداز میں چھپے ہوئے شجرے بازار میں مل جاتے ہیں ، آڈیو یا ویڈیو کی شکل میں پڑھے جانے والے شجرے موبائل وغیرہ میں سیو کئے جاسکتے ہیں۔بعض بزرگانِ دین اس شجرے کو ایک رسالے کی صورت دے دیتے ہیں جن میں صبح و شام ، مصیبت وپریشانی میں پڑھے جانے والے وظائف بھی شامل ہوتے ہیں۔
شَجَرۂ قادریہ حُضور غوثُ الاعظم شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے ، امامِ اہلِ سنّت ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کی نسبت سے شجرہ قادریہ رضویہ اور عاشقِ اعلیٰ حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی نسبت سے شجرہ قادریہ رضویہ کے آخر میں عطّاریہ کا اضافہ کیا جاتا ہے یوں عطّاری سلسلے میں مرید ہونے والوں کو شَجَرۂ قادریہ رضویہ عطّاریہ کی صورت میں سندِ طریقت ملتی ہے۔
شجرۂ عالیہ کے اشعار کس نے لکھے ؟
امامِ اہلِ سنّت ، اعلیٰ حضرت علّامہ مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے عربی ، فارسی ، اُردو زبانوں میں کم و بیش 8 شجرے نظم و نثر میں مرتب کئے جن میں اُردو زبان کا منظوم دعائیہ شجرہ قادریہ رضویہ بھی ہے ، شجرہ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کل 23 اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے ابتدائی 18 اشعار اور مقطع ( یعنی آخری شعر ) اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کا کلام ہے۔ ملکُ العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری رحمۃُ اللہ علیہ حیاتِ اعلیٰ حضرت ، جلد3 ، صفحہ54 پر لکھتے ہیں : ” ہم لوگ متوسلین بارگاہِ رضویہ ، اعلیٰ حضرت قدّس سرّہ العزیز کی حیات میں تو اسی طرح پڑھا کرتے تھے جیسے اعلیٰ حضرت نے نظم فرمایا اور اس کتاب ( یعنی حیاتِ اعلیٰ حضرت ) میں درج ہے اور مقطع ( یعنی آخری شعر ) کا یہ مطلب لیتے تھے کہ خداوندا ( یعنی اے خدا ) ببرکتِ پیر و مُرشِد برحق حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب ہم لوگوں کو چھ عین؛ عز ، علم ، عمل ، عفو ، عرفاں ، عافیت عطا فرما۔ جب 25 صفر روزِ جمعہ مبارکہ 1340ھ میں اعلیٰ حضرت ( رحمۃُ اللہ علیہ ) کا وصال ہوا اور حضرت حجۃُ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خان صاحب خلف اکبر ( یعنی بڑے بیٹے ) اعلیٰ حضرت ( رحمۃُ اللہ علیہ ) کے جانشین ہوئے تو ایک شعر ( یعنی انیسواں ) انہوں نے اعلیٰ حضرت ( رحمۃُ اللہ علیہ ) کے نامِ نامی کا اضافہ فرمایا :
کر عطا احمد رضا ئے احمد مُرسل مجھے
میرے مولیٰ حضرت احمد رضا کے واسطے
اور مقطع میں بجائے ” احمدرضا “ ، ” اِس بے نوا “ بنا دیا اور اس کو اس طرح پڑھنے لگے :
صَدْقہ اِن اَعیاں کا دے چھ عین عِزّ ، عِلم وعَمَل
عَفْوو عرفاں عافیت اِس بے نوا کے واسِطے[5]
جبکہ 20واں اور 22واں شعر عاشقِ اعلیٰ حضرت ، شیخِ طریقت ، امیر اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے لکھا :
پُر ضیا کر میرا چہرہ حَشْر میں اے کبریا
شَہْ ضیاءُ الدین پیرِ با صَفا کے واسِطے
اور۔۔۔۔۔
عشقِ اَحمد میں عطا کر چشمِ تَر سوزِ جِگَر
یاخُدا اِلیاس کو اَحمد رضا کے واسِطے
21ویں شعر ” اَحْیِنَا فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا الخ “ کے بارے میں حتمی طور پر معلوم نہ ہو سکا کہ کس کا ہے۔
واللّٰہُ تعالٰی اَعْلَمُ بِالصَّواب
دعائیہ اشعار کی خوبیاں
اِن دعائیہ اشعار کی ایک خوبی تو یہ ہے کہ مِصرَع میں جہاں کسی بُزُرگ کے نامِ مبارَک یا ان کے مشہور وَصف کو ذکر کرتے ہوئے وسیلہ بنا کر بارگاہِ الٰہی میں دعا مانگی گئی ہے وہاں کبھی تو اس نام کے الفاظ کی مناسبت سے اﷲ پاک سے نعمت طلب کی گئی ہے اور کہیں نامِ مبارَک کے معنی کے اعتبار سے مراد مانگی گئی ہے جیسے مشکلیں حل کر ” شہِ مُشکل کُشا “ کے واسِطے۔ اور کبھی صرف الفاظ کے لحاظ سے مناسبت یوں پائی گئی جیسے ” کربلائیں رَدّ “ شہیدِ کربلا کے واسِطے “ اس مِصرعہ میں ” کربَلائیں رَدّ “ کا معنی کچھ ، اور ” کربَلا “ کا کچھ اور ہے۔
مزید ان دعائیہ اشعار میں کیا کیا مانگا گیا ہے ؟ خود ہی دیکھ لیجئے ، رحم ، کرم ، مشکلات کا حل ، بلاؤں سے حفاظت ، سجدوں کی توفیق ، علمِ دین ، سچا مسلمان رہنے کی توفیق ، اللہ پاک کی رضا ، نیکی ، عاجزی ، دنیا داروں سے حفاظت ، ایک در کا رہنے کی سعادت ، غموں کو خوشیوں سے بدلنے کی دعا ، اچھائی ، خوش بختی اور سعادت مندی ، ایمان کی سلامتی ، دین و دنیا میں بلندی ، معرفتِ الٰہی میں بلند مقام ، اچھائیاں ، بھلائیاں ، نیک نامی ، رضائے محمد ، قیامت میں چہرے کی چمک ، دین و دنیا کی سلامتی ، عشقِ رسول میں رونے والی آنکھیں اور یادِ مصطفےٰ میں تڑپنے والا دل اور 6عین یعنی عِز ، علم ، عمل ، عفو ، عرفاں اور عافیت مانگی گئی ہے۔
” شجرۂ عالیہ “ پڑھنے کے 4فوائد
اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت ، مجددِ دین و ملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد26 ، صفحہ590 پر لکھتے ہیں : ” شجرہ حضور سیّدِ عالَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم تک بندے کے اِتصال ( یعنی سلسلہ کے ملنے ) کی سندہے جس طرح حدیث کی اسنادیں۔ “
مزید لکھتے ہیں : شجرہ خوانی سے ( یعنی شجرہ پڑھنے کے ) متعدد فوائد ہیں : اوّل : رسولُ اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم تک اپنے اتصال ( یعنی سلسلہ کے ملنے ) کی سند کاحفظ۔ دُوُم : صالحین ( یعنی نیک بندوں ) کا ذکر کہ مُوجِب نُزُولِ رحمت ( یعنی رَحمت کے نازل ہونے کا سبب ) ہے۔سِوُم : نام بنام اپنے آقایانِ نعمت ( یعنی سلسلے کے مشائخِ کرام رحمۃُ اللہ علیہ م ) کو ایصالِ ثواب کہ اُن کی بارگاہ سے موجبِ نظر عنایت ( یعنی نظر کرم ہونے کا سبب ) ہے۔چہارم : جب یہ ( یعنی شَجَرَہ عالیہ پڑھنے والا ) اوقاتِ سلامت ( یعنی راحت ) میں ان کا ( یعنی اپنے سلسلے کے مشائخِ کرام رحمۃُ اللہ علیہ م کا ) نام لیوا رہے گا۔ تو وہ اوقاتِ مصیبت ( یعنی کسی بھی پریشانی اور مشکل کے وقت ) میں اس کے دستگیر ہوں گے ( یعنی اس کی مدد فرمائیں گے ) ۔ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم فرماتے ہیں : تَعَرَّفْ اِلَی اﷲ ِفیِ الرَّخَاءِ یَعْرِفْکَ فِی الشِّدَّۃِ تُو خوشحالی میں اﷲ تعالیٰ کو پہچان وہ مصیبت میں تجھ پر نظر کرم فرمائے گا۔[6]
دُعارائِگاں تو جاتی ہی نہیں۔ اِس کا دُنیا میں اگر اثر ظاہِر نہ بھی ہو تو آخِرت میں اَجْر و ثواب مِل ہی جائے گا۔ لہٰذا دُعا میں سُستی اور غفلت کرنا مُناسِب نہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ شجرۂ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے 23دعائیہ اشعار کو روزانہ کم از کم ایک بار ضرور پڑھ لیا کریں ، اس میں وقت کم لگے گا لیکن برکتیں زیادہ ملیں گی ، اِن شآءَ اللہ۔
قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا
قدرِ عبدالقادر قدرت نما کے واسطے
( شجرہ شریف کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ” شرح شجرۂ قادریہ رضویہ عطّاریہ “ (صفحات : 215 ) پڑھ لیجئے )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر ) ، کراچی
[1] فتاویٰ رضویہ21 / 603
[2] فتاویٰ رضویہ21 / 505
[3] معرفۃ علوم الحدیث ، ص6
[4] بخاری ، 4 / 147 ، حدیث : 6168
[5] حیاتِ اعلیٰ حضرت ، 3 / 54تا56
[6] جامع صغیر ، ص199 ، حدیث : 3317 ، فتاویٰ رضویہ ، 26 / 590 ، 591۔
Comments