حضرت زید بن ثابت رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2022ء

مدینے میں پیارےنبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری نے یہاں کی فضاؤں کو پُر نور بنادیا تھا ، لوگ ایک گیارہ سالہ لڑکے کو لے کر حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے : یارسولَ اللہ ! یہ بنی نجار کا لڑکا ہے ، اس نے قراٰنِ پاک میں سے 17 سورتیں پڑھ لی ہیں ، ایک روایت کے مطابق وہ لڑکا 16 سورتیں پڑھ چکا تھا ، اس لڑکے نے جب وہ سورتیں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پڑھ کر سنائیں تو رحمتِ عالم بہت خوش ہوئے ،  ( پیارے آقا کے پاس خطوط آتے تھے اور آقا کریم کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ انہیں قابلِ بھروسہ شخص ہی پڑھے اس لئے )  اس لڑکے کا نام لےکر ارشاد فرمایا : تم یہودیوں کی تحریر  ( وزبان )  سیکھو ، میں اپنی تحریرکے معاملے میں کسی یہودی سے مطمئن نہیں ، پھر اس لڑکے نے یہودیوں کی تحریر  ( و زبان )  سیکھنا شروع کردی ابھی 15 دن گزرنے پائے تھے کہ وہ لڑکا اس میں ماہر ہوگیا ، اس کے بعد جب یہودیوں کی طرف کوئی تحریر بھیجی جاتی تو اسے وہ لڑکا ہی لکھتا تھا اور جب وہاں سے کوئی تحریر آتی تو وہی ذہین و فطین لڑکا ہی اس تحریر کو پڑھ کر سناتا۔ ایک روایت میں ہے کہ پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ا س لڑکے کو سریانی زبان سیکھنے کا ارشاد فرمایا تو اس ذہین لڑکے نے 17 دن میں سریانی زبان سیکھ لی۔  [1]

پیارے اسلامی بھائیو ! یہ ذہین و فطین لڑکے مشہور صحابیِ رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔

 بچپن آپ نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی۔ آپ کا شمار ذہین و فطین افراد میں ہوتا ہے[2]

بارگاہِ رسالت کی یادیں ایک مرتبہ آپ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب بیٹھےتھے کہ نبیِّ کریم پر وحی کا نزول ہوا ، اس دوران پیارے آقا کی ران مبارک آپ کی ران کے اوپر آگئی ، حضرت زید فرماتے ہیں : اللہ کی قسم ! میں نے کبھی کسی چیز کو اتنا بھاری نہ پایا جتنی وزن دار رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ران مبارک تھی ، پھر رسولِ کریم کی وہ کیفیت ختم ہوئی تو فرمایا : اے زید !   ( قر اٰ ن کو ) لکھو۔ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے آپ سے رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : میں تم لوگوں کو کیا بیان کروں؟ میں تو حضورِ اکرم  کا پڑوسی تھا ، جب وحی نازل ہوتی تو رسولِ کریم مجھے بلا بھیجتے اور میں وحی لکھ لیتا ، جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تو رسولِ کریم اس میں ہمارا ساتھ دیتے ، جب کھانے کا تذکرہ کرتے تو حضورہمارے ساتھ گفتگو میں شریک رہتے۔

 پہلا تحفہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینے میں جلوہ گرہونے کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں قیام فرمایا تھا ، وہاں سب سے پہلے تحفہ لےکر حاضر ہونے والے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے ، برتن میں روٹی ، گھی اور دودھ تھا ، آپ نے عرض کی : اس برتن کو میری والدہ نے بھیجا ہے ، پیارے آقا نے دعا دی : اللہ تجھے برکت دے ، پھر اپنے اصحاب کو بلایا اور سب نے مِل کر کھایا۔[3]

دربارِ نبوی میں مقام ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ سے ارشاد فرمایا : جب تم بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم لکھو تو اس میں سین کو واضح کردیا کرو۔[4]  کبھی یہ کلمات زبان پر تشریف لائے : زید کو میرے پاس بلاؤ اور اس سے کہوکہ شانے کی ہڈی ، دوات اور تختی ساتھ لے آئے۔

بارگاہِ صدیقی جمعِ قراٰن کے سلسلےمیں حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا : تم کاتبِ وحی ہو ، تم رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک امانت دار تھے اور ہم سب کے نزدیک بھی امانت دار ہو[5]  لہٰذا آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کے حکم پر قراٰن جمع کیا ، آپ فرماتے ہیں : میں نے چمڑے کے ٹکڑوں پر ،  (جانور کے)  کندھے کی ہڈیوں کے ٹکڑوں اور کھجور کی شاخوں پر قراٰنِ پاک کو لکھ کر جمع کیا۔  [6]

 دربارِ فاروقی فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ نے سفر پر روانہ ہوتے وقت کئی مرتبہ آپ کو مدینے میں اپنا قائم مقام بنایا۔ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مختلف شہروں کے بڑے اور اہم معاملات حل کرنے کے لئے منتخب لوگوں کو طلب کرتے اور انہیں وہاں بھیجا کرتے تھے ، بارگاہِ فاروقی میں عرض کی جاتی : زید بن ثابت کو بھیج دیں تو ارشادِ فاروقی کچھ یوں ہوتا : اِس شہر کے باشندوں کو زید کی ضرورت ہے ، یہ لوگ اپنے در پیش معاملات میں زید کے پاس جو حل پاتے ہیں وہ حل انہیں کہیں اور نہیں ملتا۔

بارگاہِ عثمانی حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ زمانۂ حج میں آپ کو مدینے میں اپنا نائب بناتے[7] آپ دورِ عثمانی میں بیتُ المال کے نگران و منتظم رہے۔[8]

صلاحیتیں ماہر جسٹس کی طرح کئی سال تک منصبِ قضا پر فائز رہے ، دورِ رسالت سے ہی فتویٰ دینے لگے تھے ، فنِ قراءت میں آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا ، علمِ وراثت میں آپ کا کوئی ہم پلہ دکھائی نہیں دیتا اسی وجہ سے حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا عثمان غنی  رضی اللہ عنہما ان شعبہ جات میں آپ کو ترجیح دیتے تھے ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت میں بھی آپ ان شعبوں میں اپنی ذمہ داری بخوبی نبھاتے رہے ،[9]  ایک قول کے مطابق آپ 2زبانوں یعنی عربی اور عبرانی میں خط لکھ لیا کرتے تھے[10]پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شہرِ طائف کا محاصرہ ختم کرکے مقام ِجعرانہ پہنچے تو وہاں اموالِ غنیمت جمع ہوچکا تھا ، 6ہزار غلام ، 24 ہزار اونٹ ، 40 ہزار سے زیادہ بکریاں جبکہ ایک لاکھ 60 ہزار درہم کے برابر چاندی تھی ، حضرت زید نے پیارے آقا کے حکم پر سب لوگوں کی گنتی کی کہ ہر ایک کے حصے میں کتنا کتنا مال آئے گا ، اعداد و شمار مکمل ہوا تو پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مالِ غنیمت لوگوں میں تقسیم کردیا۔[11]

غزوات سب سے پہلا غزوہ جس میں آپ کی شرکت ہوئی وہ سن 5 ہجری میں ہونے والا غزوۂ خندق تھا ، اس وقت آپ کی عمر 15 برس تھی ،[12]اس غزوہ میں آپ دیگر مسلمانوں کے ساتھ مِل کر خندق سے مٹی نکالتے تھے   [13]  غزوۂ تبوک کے موقع پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قبیلہ بنی مالک بن نجار کا جھنڈا ایک صحابی سے لے کر آپ کے ہاتھ میں دیا ، انہوں نے عرض کی : کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے؟ فرمایا : قراٰن کو مقدم کیا جاتا ہے اور زید تم سے زیادہ قراٰن کا عالم ہے۔[14]

 ادائے مصطفےٰ حضرت ثابت فرماتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھ کر چل رہے تھے ، مجھ سے فرمایا : کیا تم مجھ سے سوال نہیں کروگے میں ایسا کیوں کررہا ہوں ، میں نے پوچھا تو فرمایا : حضرت زید بن ثابت بھی یوں ہی چل رہے تھے ، انہوں نے بھی مجھ سے یہی فرمایا ، میں نے وجہ پوچھی تو حضرت زید نے کہا : رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ایسا ہی کیا تھا اورپھر مجھ سے فرمایا : اے زید ! کیا تم جانتے ہو کہ میں ایسا کیوں کررہا ہوں ، وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ مسجد پہنچنے تک ہمارے قدم بکثرت ہوجائیں۔[15]

عبادات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ رمضان کی 23 اور 27 ویں رات کو شب بیداری کرتے تھے لیکن جس قدر شب بیداری کا اہتمام  17 رمضان کی رات کو کرتے ویسا کسی اور رات نہ کرتے وجہ پوچھنے پر فرمایا: اس رات قراٰن کا نزول ہوا اور اس رات کی صبح  ( غزوۂ بدر میں )  حق وباطل کے درمیان فرق کردیا گیا تھا۔[16]

وفات ایک قول کے مطابق آپ نے بعمر 56 برس سن 45ھ کو مدینے میں رحلت فرمائی[17]  جبکہ آپ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد 92 ہے جن میں سے 5 احادیث بخاری و مسلم میں متفقہ طور پر موجود ہیں۔[18]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] تاریخ ابن عساکر ، 19 / 302 ، 304 ، مستدرک ، 4 / 522 ، 523

[2] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 74

[3] طبقات ابن سعد ، 1 / 159 ، 183 ، 274

[4] تاریخ ابن عساکر ، 72 / 174

[5] تاریخ ابن عساکر ، 19 / 306

[6] حلیۃ الاولیاء ، 2 / 62

[7] تاریخ ابن عساکر ، 19 / 316 ، 317

[8] تہذیب الاسماء واللغات ، 1 / 198

[9] طبقات ابن سعد ، 2 / 274 ، 275

[10] مستدرک ، 4 / 522

[11] طبقات ابن سعد ، 2 / 116ملخصاً

[12] مستدرک ، 4 / 522

[13] تاریخ ابن عساکر ، 19 / 313

[14] مستدرک ، 4 / 522

[15] مسند ابو داود طیالسی ، 1 / 497 ، حدیث : 606ملخصاً

[16] معجم کبیر ، 5 / 135 ، رقم : 4865ملتقطاً

[17] تاریخ ابن عساکر ، 19 / 333

[18] تہذیب الاسماء واللغات ، 1 / 198


Share