شافعِ محشر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میدانِ حشر میں

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ( قسط:21)

شافعِ محشر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میدانِ حشر میں

*مولانا ابو الحسن عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2022ء

میدانِ محشر میں انداز :

 ( 36 ) اَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَهٗ اٰدَمُ فَمَنْ دُونَهٗ وَلا فَخْرَ ترجمہ : میں ہی قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والاہوں ، جس کے نیچے آدم علیہ السّلام اور دیگر  ( سب لوگ )  ہوں گے ، فخر نہیں ہے۔  [1]

گزشتہ ماہ کے مضمون میں شامل  ” احادیثِ اَنَا “  میں حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی میدانِ حشر میں آمد کے انداز و احوال کا ذکر تھا جبکہ آج کے اس مضمون میں مذکور احادیثِ کریمہ میں نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے میدانِ حشر میں انداز اور آپ کی مصروفیات کا ذکر ہے۔

مذکورہ حدیث میں لِوَاءُ الْحَمْد یعنی حمد کا جھنڈا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ہونے کا بیان ہے ، اس کی شرح و تفصیل میں مفسرِ شہیر حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس فرمانِ عالی  ( یعنی لِوَاءُ الْحَمد )  کے بہت معنی کئے گئے ہیں : ایک یہ کہ واقعی ایک جھنڈے کا نام لِوَاءُ الْحَمْد ہے ، یہ جھنڈا الله تعالیٰ کی اعلیٰ نعمت ہے جو صرف حضور کو عطا ہوگی کیونکہ الله کی حمد سب سے افضل ہے۔ دوسرے یہ کہ قیامت میں سب سے پہلے سجدہ میں گِر کر الله تعالیٰ کی بے مثال حمد حضور ہی کریں گے ، ایسی حمد جو اس سے پہلے کسی نے نہ کی ہو اور علانیہ حمدبھی حضور ہی کریں گے حمد کے جھنڈے سے یہ ہی مراد ہے یعنی اعلان حمد۔ تیسرے یہ کہ حمد سے مراد ہے الله تعالیٰ کا حضور کی حمد فرمانا اور آپ کی حمد کا اعلان فرمانا کہ تمام دنیا اور خود خدا تعالیٰ حضور کی حمد فرمائے ، آپ کی حمد کا اعلان کرے۔ (  حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اسی حمد کے بارے میں قراٰنِ پاک میں )  رب فرماتاہے : (عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (۷۹) ) ان ہی  وجوہ سے حضورِ انور کا نام احمد ، محمد اور محمود ہے بلکہ حضور کی اُمّت کا نام ہے حمّادون ( یعنی ہر حال میں حمدِ الٰہی کرنے والی )  کیونکہ یہ حضور محمد کی اُمّت ہے ۔مزید فرماتے ہیں : اگر جھنڈے سے مراد ظاہری جھنڈا ہے تو معنی یہ ہیں کہ سارے نبی میرے اس جھنڈے تلے جمع ہوکر حمدِ الٰہی کریں گے ، ہم ان کے امام ہوں گے اور اگر وہاں جھنڈے سے مراد تھی حمدِ الٰہی تو مطلب یہ ہے کہ سب ہمارے بتانے سکھانے سے حمد الٰہی کریں گے اور اگر وہاں مراد تھی حضور کی حمد تو مطلب یہ ہے کہ رب تعالیٰ بھی ہماری حمد کرے گا اور ساری مخلوق حتی کہ انبیائے کرام بھی ہماری حمد کریں گے۔  [2]

میدانِ حشر میں ملجا و ماویٰ :

 ( 37 ) اَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرَ ترجمہ : میں ہی تمام رسولوں کا قائد  ( سردار )  ہوں گا فخر نہیں ہے۔  [3] ( 38 ) اَنَا سَيِّدُ وَلَدِ اٰدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا فَخْرَ ترجمہ : میں ہی قیامت کے دن اولادِآدم کا سردار ہوں گا اور فخر نہیں۔  [4] (39) اَنَا مُبَشِّرُهُمْ اِذَا اَيِسُوا ترجمہ : جب لوگ مایوس ہوجائیں گے تو میں ہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں۔   (40 ) اَنَا خَطِيبُهُمْ اِذَا وَفَدُوا ترجمہ : میدانِ حشر میں جب لوگ وفد کی صورت میں میرے پاس آئیں گے تو ان کی طرف سے اللہ کی بارگاہ میں ہی نمائندہ بنوں گا۔  [5]   ( 41 ) اَنَا مُسْتَشْفِعُهُمْ اِذَا حُبِسُوا ترجمہ : میں ہی ان کا شفیع ہوں گا جب ان کو روک دیا جائےگا۔[6] ( 42 ) اَنَا خَطِيبُهُمْ اِذَا اَنْصَتُوا ترجمہ : جب لوگ خاموش ہونگے تو میں ہی ان کا ترجمان ہوں گا۔  [7]

ان احادیثِ کریمہ میں حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے میدانِ حشر میں ، ساری مخلوق کے ملجا و ماویٰ ( یعنی پناہ گاہ ) ، قائد ، سردار ، شفیع ہونے کا بیان ہے۔

یہ خلق پِھری کہاں سے کہاں تمہارے لئے

میدانِ حشر ملکِ شام کی زمین پر قائم ہوگا۔ اُس دن زمین تانبے کی ہوگی اور آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ تپش سے بھیجے کھولتے ہوں گے  اور اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستّر گز زمین میں جذب ہوجائے گا۔  حشر کی اس  گرمی اور پریشانی میں پریشان حالوں کے لئے  شافع محشر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات گرامی  کس طرح  خیرخواہی کا ذریعہ بنے گی ، اس کی منظر کشی  صد ر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ  کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے :

اب آپس میں مشورہ کریں گے کہ کوئی اپنا سفارشی ڈھونڈنا چاہیے کہ ہم کو اِن مصیبتوں سے رہائی دلائے ، ابھی تک تو یہی نہیں پتا چلتا ہے کہ آخر کدھر کو جانا ہے ، یہ بات مشورے سے قرار پائے گی کہ حضرت آدم علیہ السّلام ہم سب کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اِن کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور جنت میں رہنے کو جگہ دی اور مرتبہ نبوت سے سرفراز فرمایا ، اُن کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے ، وہ ہم کو اِس مصیبت سے نجات دلائیں گے۔

    غرض اُفتاں و خیزاں ( گرتے پڑتے بدحواسی کی حالت میں )  کس کس مشکل سے اُن کے پاس حاضر ہو ں گے اور عرض کریں گے : اے آدم !  آپ ابو البشر ہیں ، اللہ عزوجل نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور اپنی چُنی ہوئی روح آپ میں ڈالی اور ملائکہ سے آپ کو سجدہ کرایا اور جنت میں آپ کو رکھا ، تمام چیزوں کے نام آپ کو سکھائے ، آپ کو صفی کیا ، آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ آپ ہماری شفاعت کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے نجات دے۔  [8]  فرمائیں گے : میرا یہ مر تبہ نہیں ، مجھے آج اپنی جان کی فکر ہے ،[9]   آج رب عزوجل نے ایسا غضب فرمایا ہے کہ نہ پہلے کبھی ایسا غضب فرمایا ، نہ آئندہ فرمائے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ !   [10]  لوگ عرض کریں گے : آخر ہم کس کے پاس جائیں؟ فرمائیں گے :[11]  نُوح کے پاس جاؤ ، کہ وہ پہلے رسول ہیں کہ زمین پر ہدایت کے لئے بھیجے گئے۔[12]

 لوگ اُسی حالت میں حضرت نُوح علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور اُن کے فضائل بیان کرکے عرض کریں گے[13]کہ آپ اپنے ربّ کے حضورہماری شفاعت کیجیے کہ وہ ہمارا فیصلہ کر دے ، یہاں سے بھی وہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں ، مجھے اپنی پڑی ہے ،[14]  تم کسی اور کے پاس جاؤ !   [15]عرض کریں گے ، کہ آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں؟ فرمائیں گے :[16]تم ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ ،[17]   کہ اُن کو اللہ تعالیٰ نے مرتبہ خُلّت ( یعنی دوستی کے رتبے )  سے ممتاز فرمایا ہے۔[18]

 لوگ یہاں حاضر ہوں گے ، وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اِس کے قابل نہیں ، مجھے اپنا اندیشہ ہے۔

    مختصر یہ کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی خدمت میں بھیجیں گے ، وہاں بھی وہی جواب ملے گا ، پھر موسیٰ علیہ السّلام حضرت عیسیٰ علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے پاس بھیجیں گے ، وہ بھی یہی فرمائیں گے : کہ میرے کرنے کا یہ کام نہیں ،[19] آج میرے رب نے وہ غضب فرمایا ہے ، کہ ایسا نہ کبھی فرمایا ، نہ فرمائے ، مجھے اپنی جان کا ڈر ہے ، تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ ،[20]  لوگ عرض کریں گے : آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں؟ فرمائیں گے : تم اُن کے حضور حاضر ہو ، جن کے ہاتھ پر فتح رکھی گئی ، جو آج بے خوف ہیں ،[21]  اور وہ تمام اولادِ آدم کے سردار ہیں ، تم محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو ، وہ خاتم النبیین ہیں ، وہ آج تمہاری شفاعت فرمائیں گے ، اُنہیں کے حضور حاضر ہو ، وہ یہاں تشریف فرما ہیں۔[22]

    اب لوگ پھِرتے پھِراتے ، ٹھوکریں کھاتے ، روتے چلّاتے ، دُہائی دیتے حاضرِ بارگاہِ بے کس پناہ ہو کر عرض کریں گے :  [23]  اے محمد !   [24]  اے اللہ کے نبی !  حضور کے ہاتھ پر اللہ عزوجل نے فتحِ باب رکھا ہے ، آج حضور مطمئن ہیں ،[25]  اِن کے علاوہ اور بہت سے فضائل بیان کرکے عرض کریں گے : حضور ملاحظہ تو فرمائیں ہم کس مصیبت میں ہیں !  اور کس حال کو پہنچے !  حضور بارگاہِ خداوندی میں ہماری شفاعت فرمائیں اورہم کو اس آفت سے نجات دلوائیں۔[26]جواب میں ارشاد فرمائیں گے :  ” اَنَا لَھَا [27]میں اس کام کے لیے ہوں ،  ” اَنَا صَاحِبُکُمْ[28]میں ہی وہ ہوں جسے تم تمام جگہ ڈھونڈ آئے ، یہ فرماکر بارگاہِ عزّت میں حاضر ہوں گے اور سجدہ کریں گے ، ارشاد ہوگا :  ” یَا مُحَمَّدُ !  اِرْفَعْ رَأسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہٗ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ “  اے محمد ! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو ، تمہاری بات سنی جائے گی اور مانگو جو کچھ مانگو گے ملے گا اور شفاعت کرو ، تمہاری شفاعت مقبول ہے۔

    پھر تو شفاعت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ، یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ سے کم سے کم بھی ایمان ہوگا ، اس کے لیے بھی شفاعت فرماکر اُسے جہنم سے نکالیں گے ، یہاں تک کہ جو سچے دل سے مسلمان ہوا اگرچہ اس کے پاس کوئی نیک عمل نہیں ہے ، اسے بھی دوزخ سے نکالیں گے۔  [29]

عاشقِ شافعِ محشر   مولانا حسن رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے :

فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزم محشر کا

کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے[30]

نوٹ : میدانِ محشر کے یہ احوال کئی احادیث کریمہ کا خلاصہ ہے ، ان احادیث کریمہ کی مکمل تفصیل کے لئے المدینۃ العلمیہ کی تخریج شدہ  بہارِ شریعت ، جلد1 ، حصہ اوّل ، صفحہ 132 تا139 ملاحظہ فرمائیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] شرح السنۃ للبغوی ، 7/11

[2] مراٰۃ المناجیح ، 8/23

[3] دارمی ، 1/40 ، حدیث : 49

[4] ترمذی ، 5/354 ، حدیث : 3635

[5] ترمذی ، 5/352 ، حدیث : 3630

[6] مشکاۃ المصابیح ، 2/357 ، حدیث : 5765

[7] دارمی ، 1/39 ، حدیث : 48

[8] بخاری ، 4/554 ، حدیث : 7440

[9] مسند احمد ، 1/603 ، حدیث : 2546

[10] بخاری ، 2/415 ، حدیث : 3340

[11] خصائص الکبری ، 2/383

[12] بخاری ، 4/542 ، حدیث : 7410

[13] بخاری ، 2/415 ، حدیث : 3340

[14] مسند احمد ، 1/603 ، حدیث : 2546

[15] بخاری ، 3/260 ، حدیث : 4712

[16] خصائص الکبری ، 2/383

[17] مسند احمد1/603 ، حدیث : 2546

[18] مسند احمد ، 1/21 ، حدیث : 15

[19] مسند احمد ، 1/603 ، 604 ، حدیث : 2546

[20] بخاری ، 3/260 ، حدیث : 4712

[21] خصائص الکبری ، 2/383 ملتقطاً

[22] مسند احمد ، 1/21 ، حدیث : 15

[23] فتاوی رضویہ ، 30/223

[24] بخاری ، 3/260 ، حدیث : 4712

[25] خصائص الکبری ، 2/383 ملتقطا

[26] مسلم ، ص 125 ، حدیث : 327

[27] بخاری ، 4/577حدیث : 7510

[28] معجم کبیر ، 6/248 ، حدیث : 6117

[29] : بخاری ، 4/577 ، 578 ، حدیث : 7510

[30] ذوقِ نعت ، ص161


Share

Articles

Comments


Security Code