شہرِ بغداد(قسط:01)

تاریخ کے اوراق

شہرِ بغداد ( قسط : 01 )

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2022ء

بغداد اسلامی عہد سے پہلے کا نام ہے ، جس کا تعلق زمانہ سابق کی ان بستیوں سے ہے جو اسی مقام پر آباد تھیں۔ ان بستیوں میں سب سے اہم گاؤں بغداد تھا۔

شہرِ بغداد کی سب سے زیادہ شہرت حضور سیّدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ کی نسبت ہے ، اس گاؤں کو سب سے پہلےعباسی خلیفہ ابوجعفرمنصور عبدُاللہ بن محمد بن علی نے شہر میں تبدیل کیا۔ خلیفہ کو اپنے فوجی لشکروں اور عام رعایا کے لئے مناسب جگہ کی جستجو تھی تو اُسے عسکری ، غذائی اور آب و ہواکے لحاظ سے بغداد کا مقام پسند آیا کیونکہ یہ ایک زرخیز میدان تھا ، یہاں دریا کے دونوں جانب کھیتی تھی ، اردگرد نہروں کا ایک جال تھا، عراق کا وسط تھا اور آب و ہوا معتدل اور صحت افزا تھی۔[1]

شہربغداد کی تعمیر وتکمیل : بغداد کی تعمیرکا نقشہ 141ہجری میں تیار ہوگیا تھا لیکن تعمیراتی کام145 ہجری میں شروع ہوا۔ خلیفہ منصور149 ہجری میں یہاں منتقل ہوا۔ ماہرین فنِ عمارت نے اس شہر کا نقشہ تیار کیا ، حجاج بن ارطاۃ نے مسجد کا نقشہ تیار کیا۔  [2]

شہرِ بغداد کی تعمیر کے وقت سب سے پہلی اینٹ رکھتے ہوئے یہ الفاظ کہے گئے : بِسْمِ اللہ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالْاَرْضُ لِلّٰہِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْن ترجمہ : اللہ پاک کے نام سے شروع اور تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں اور زمین اللہ تعالیٰ کی ہے ، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا اِس کا وارث بنادیتا ہے اور آخرت تقویٰ اختیار کرنے والوں اور پرہیزگاروں کے لئے ہے۔شہر کی تعمیر 149ہجری میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔  [3]

شہرِ بغداد کی بنیاد گول دائرے کی شکل میں رکھی گئی اور بادشاہ کا محل اس کے وسط یعنی سینٹر میں بنایا گیا اوراس کے چار دروازے رکھے گئے ، یوں یہ شہری منصوبہ بندی کا ایک قابلِ قدر نمونہ تھا۔یہ مدور  ( گول )  شہر نقشے کے لحاظ سے ایک بڑا قلعہ معلوم ہوتا تھا۔شاہی محل کے اوپر 80ذراع اونچاایک سبزگنبد تعمیر کیا گیا ، یہ گنبد شہرکا تاج ، بغداد کی علامت اور خلافت عباسیہ کی یادگار تھا جو تقریباً180سال قائم رہا۔  [4]

بغداد نام کی وجہ اور دیگرنام : بغداد کا لفظی معنی بنتا ہے  ” عطیۂ خدا “  یا اس کا معنی ہے ” بھیڑوں کا باڑہ یا احاطہ۔ “   [5]  خلیفہ ابوجعفر منصور نے اپنے شہر کا نام قصر السلام ( سلامتی کا شہر )  [6]یا مدینۃ ُالسلام رکھایہی سرکاری نام دستاویز ، سِکّوں اور باٹوں پر لکھا جاتا تھا۔بغداد کے کچھ عرفی نام بھی تھے جیسے مدینۃ ابی جعفر ، مدینۃ المنصور ، مدینۃ الخلفاء اور الزوراء۔  [7]

بغداد کی تعریف وتوصیف : ( 1 ) حضرت امام شافعی رحمۃُ اللہ علیہ نے یونس بن عبدالاعلی سے پوچھا : کیا تم بغداد گئے ہو؟ جواب دیا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : مَارَأَیْتَ الدُّنْیَا وَلَا النَّاسَ یعنی تو پھرتم نے نہ دنیا دیکھی اور نہ ہی  (شاندار اہلِ علم ) لوگ دیکھے۔  [8]

 ( 2 ) حضرت سیِّدُنا معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ بغداد کے بارے میں اپنے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے : مجھے تو بغداد میں مرنے کا حکم دیا گیا ہےکیونکہ اس شہرکےیہ نیک لوگ سچے ابدالوں میں سے ہیں۔  [9]

 ( 3 ) ابوبکر بن عیاش فرماتے ہیں : اسلام بغداد میں ہے اور یہ شہر ایک شکاری ہے جو  ( علم وفن کے ماہر )  مَردوں کو شکار کرتا ہے اور جس نے یہ شہر نہیں دیکھا اُس نے دنیا نہیں دیکھی۔[10]

  ( 4 ) ابواسحاق ابراہیم بن علی فیروز آبادی کہتے ہیں : بغداد میں آنے والا اگر عقل مند اور معتدل مزاج ہو تو وہ یہاں مرتے دم تک رہے گا یا اس کی حسرت رکھے گا۔  [11]

  ( 5 ) ابن مجاہد مقری بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوعَمرو بن علاء کو خواب میں دیکھ کر پوچھا : اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ جواب دیا : تم اِس بات کو رہنے دو ، جو شخص بغداد میں مسلکِ اہلسنت وجماعت پر قائم رہا اور مرگیا وہ ایک جنّت سے دوسری جنّت میں منتقل ہوگیا۔  [12]

 ( 6 ) ابوقاسم بزیاش بن حسن دیلمی کہتے ہیں : میں نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے ، سمرقند سے قیروان تک اور سراندیپ سے روم تک شہروں میں گیا ہوں مگر فضیلت وپاکیزگی میں بغداد سے بڑھ کر کوئی شہر نہیں دیکھا۔  [13]

 ( 7 ) ایک دانشوروفاضل یوں تعریف کرتے ہیں : بغداد زمین کی جنّت ، سلامتی کا شہراوراسلام کا گنبد ہے ، یہاں دجلہ وفرات جمع ہوتے ہیں ، یہ شہروں کی پیشانی ، عراق کی آنکھ اور دارُالخلافہ ہے ، خوبیوں اور پاکیزگیوں کا مجموعہ ہے ، دانائیوں اور لطافتوں کا سرچشمہ ہے اور یہاں ہر فن میں ماہرین و یکتائے زمانہ لوگ ہیں۔

 ( 8 ) ابوالفرج الببغا کہتے ہیں : بغداد سلامتی کا شہر بلکہ اسلام کا شہر ہے کیونکہ حکومتِ نبویہ اور خلافتِ اسلامیہ یہاں سے پروان چڑھی ہیں۔

 ( 9 )  ابن العمید کے سامنے اگر کوئی علوم وآداب کا دعویٰ کرتا اور آپ اس کی عقلمندی کا امتحان لینا چاہتے تو اس سے بغداد کے متعلق پوچھتے ، اگر وہ شہربغداد کی خصوصیات کو سمجھنے والا اور اس کی خوبیوں سے آگاہ ہوتا اور اس کی تعریف وتوصیف کرتا تو آپ اِسے اس بندے کے فضل وکمال اور عقل کی دلیل بناتے۔

 ( 10 )  ابن العمید کہا کرتے کہ بغداد شہروں میں ایسا ہے جیسے لوگوں میں استاد ہوتا ہے۔  [14]

شہربغداد کی دینی وعلمی سرگرمیاں : عروس البلاد بغداد صدیوں سے علوم وفنون ، ادب وثقافت اور روحانیت کا مرکز رہاہے۔یہ شہر خاص کر فقہِ حنفی اور فقہِ حنبلی کا گھر تھا ، یہاں بیت الحکمۃ ودار الترجمہ قائم کیا گیا جس میں یونانی ، لاطینی ، سنسکرت ، سریانی اور دیگر زبانوں کی کتب کا ترجمہ کیا جاتا تھا۔ بقول مؤرخین یہی کتب صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور اس کے عُروج وترقّی میں اہم کردار ادا کیا۔اس مرکز کے علاوہ بھی اہلِ علم وفن کتب کے ترجمے کرتے تھے۔یہاں کی مساجد بالخصوص جامع المنصور علوم کے بڑے مراکز تھے۔بڑے بڑے مدارس قائم کئے گئے۔ کتابوں کی دکانیں کثیر تعداد میں تھیں۔ بغداد میں مشائخ ، علماء ، فقہاء ، حکماء ، شعراء اور تاریخ دانوں کی اتنی بڑی تعداد تھی جو بیان نہیں کی جاسکتی۔وجہ یہ بھی تھی کہ خلفاء ، وزراء اور بڑے عہدوں پر فائز افراد علم وفن کی ہر طرح سے قدر کرتے تھے ، یہاں عُلماوفُضلا کی عزت وتوقیر کی جاتی تھی ، دینی و علمی سرگرمیوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ ایسی باکمال وباعظمت شہرت کا چرچا سن کر ہندسے لے کر مصر تک علم و فنون میں یکتا ، قابل ، باصلاحیت شخصیات بغداد کا رخ کرنے لگیں۔ پھر دنیانے دیکھا کہ یہ شہرعلمی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔

 ( جاری ہے )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃُ العلمیہ کراچی



[1] تاریخ طبری ، 5  / 81 ، بلدان للیعقوبی ، 1 / 11 ، معجم البلدان ، 1 / 361 ، تاریخ یعقوبی ، 1 / 262

[2] المنتظم ، 8 / 72 تا 74ماخوذا ، تاریخ طبری ، 5 / 81 ، 82 ، 99

[3] معجم البلدان ، 1 / 361

[4] معجم البلدان ، 1 / 362 ، 363ملخصاً۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 4 / 643 ، 645ملتقطا۔ آثار البلاد و اخبار العباد ، ص314 ، 315 ملخصاً

[5] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 4 / 638۔639ملتقطا

[6] معجم البلدان ، 1 / 361

[7] اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 4 /  639 ، 640

[8] معجم البلدان ، 1 / 365

[9] اتحاف السادة المتقین ، 12 / 560

[10] المنتظم ، 8 / 84

[11] معجم البلدان ، 1 / 364

[12] معجم البلدان ، 1 / 365

[13] المنتظم ، 8 / 84

[14] معجم البلدان ، 1 / 364


Share