حضرت سیِّدنا جعفر طیّار رضیَ اللہُ تعالٰی عنہپیارے آقا، مکی مدنی داتا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے مَحبوب و دِلدار تھےاور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچا زاد بھائی بھی تھے۔ کنیت و اَلقابات آپ کی کنیت ابو عبد اللہ اور ابو المساکین ہے جبکہ اَلقابات جَوّاد (سخی)،ذُو الجَناحَین (دو پروں والے)،طیّار (اڑنے والے ) اور صاحبُ الہجرتین (پہلی ہجرت حَبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ شریف کی طرف فرمانے والے) ہیں۔(ترمذی،ج5،ص425، حدیث:3791۔سبل الہدیٰ و الرشاد،ج11،ص106)چار عظیم خوبیاں منقول ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: (1) میں نے کبھی شراب نہیں پی، کیونکہ اس سے عقل زَائل(یعنی کم ) ہوتی ہے (2) میں نے کبھی بُت کی پوجا نہیں کی، کیونکہ یہ پتھر نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ (3) میں کبھی بَدکاری میں مُبتلا نہیں ہوا کیونکہ میں اپنی بیوی کے بارے میں غیرت رکھتا ہوں (کہ کوئی اس سے بدکاری کرے) (4)میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کیونکہ میں جھوٹے کو کمینہ خیال کرتا ہوں۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: 219، ص101ملتقطاً)قبولِ اسلام آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اپنے سگے بھائی شیر ِخدا، حضرتِ سیّدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم سے عمر میں 10 برس بڑے تھے۔ آپ 25یا 31 مَردوں کے بعداِیمان کی دولت سے مالامال ہوئے۔ (الاصابہ،ج1،ص592، 593) ہجرتِ حبشہ کُفارِ مکہ کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کی وجہ سےنبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے اِعلانِ نبوّت کے پانچویں سال،رسولُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے اِجازت لے کر 80مردوں کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،ج2،ص297، 298) نیکی کی دعوت حبشہ کے بادشاہ حضرت نَجاشی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے اسلام لانے کا سبب بھی آپ کی ذاتِ مُقدَّسہ بنی تھی۔ایک مَوقع پر آپ نے شاہ نَجاشی کے سامنے اللہ ربُّ العٰلمین کی وَحدانیّت، پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی رِسالت، اسلام کی حقانیّت، حضرت عیسیٰ علیہِ السَّلام کی صَداقت اور حضرت بی بی مریم رحمۃ اللہُ تعالٰی علیہاکے پاک دامن ہونے پر ایسی رُوح پَرور تقریر فرمائی، کہ شاہِ حبشہ کی زبان پر یہ کلمات جاری ہو گئے: میں گواہی دیتا ہوں، کہ حضرت محمد صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول ہیں، حضرت عیسیٰ علیہِ السَّلام نے ان ہی کی بِشارت دی تھی، اگر میں بادشاہت کے کاموں میں مشغول نہ ہوتا، تو ضرور ان کی خدمت میں حاضری دیتا اور ان کی نعلین مُقدّس کو اٹھاتا۔ تم لوگ جب تک چاہو، یہاں ٹھہرو۔اس کے بعدشاہِ حبشہ نے آپ اور دیگر مُسلمانوں کے لئے لباس اورطَعام کا بندوبست کرنے کا حُکم بھی دیا۔ (المستدرک،ج3،ص33، حدیث:3261 ملخصاً) ہجرتِ مدینہ ماہِ صفر سن 7ہجری میں رحمتِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم غزوۂ خَیبر سے واپس لوٹے تو دوسری طرف آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اپنے گھر والوں سَمیت 16 اَفراد کو لے کر حبشہ سے ہجرت کرکے مدینے پہنچے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی آمد پر جانِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے خَیر مَقدم(یعنی اِستقبال) کرتے ہوئے آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ لیااور اپنے سینے سے لگا لیا، پھر اِرشاد فرمایا: میں نہیں جانتا کہ فتحِ خیبرسے مجھے زیادہ خوشی ہورہی ہے یا جعفر کے لوٹ آنے سے؟ (سیرت ابن کثیر،ج3،ص391 ملتقطاً) پھر خَیبر کے مالِ غنیمت سے آپ اورحبشہ سے آنے والے تمام اَصحاب کو بھی حصہ عطا فرمایا۔ (طبقات ابن سعد،ج4،ص26) عمرہ کی ادائیگی 7ہجری ماہِ ذیقعدہ میں پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے ساتھ عُمرہ کی سَعادت پائی۔اس مَوقع پر رحمتِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ان کلِمات کے ساتھ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی عَظمت بڑھائی کہ تم صُورت و سِیرت میں میرے مُشابِہ ہو۔(بخاری ،ج2،ص212، حدیث: 2699 ملتقطاً) مَساکین سے محبّت آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ مَساکین سے بے حد محبّت کرتے تھے، ان کے ساتھ بیٹھتے اور گفتگو کیا کرتے تھے۔ (ترمذی،ج5،ص425، حدیث: 3791) حضرت سیّدنا ابو ہریرہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: لوگوں میں مَساکین کے سب سے زیادہ خَیر خواہ(بھلائی چاہنے والے) حضرت جعفر (رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ)تھے۔ (بخاری،ج3،ص536، حدیث: 5432) مزید فرماتے ہیں :ہم حضرت جعفر (رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ) کے پاس آتے، تو گھر میں جو کچھ ہوتا ہمیں کھلادیا کرتے تھے،یہاں تک کہ ایک مَرتبہ گھر میں کچھ نہ ملا، تو شہد کا ایک خالی مَشکیزہ لے آئے، ہم نے اسے کھولا اور بَچا کُھچا شہدکھانے لگے۔(ترمذی،ج5،ص426، حدیث: 3792) واقعۂ شہادت جُمادَی الاولیٰ 8 ہجری کو ملک شام کی سرزمین ”مُؤْتَہ“ کی جانب مسلمانوں کا لشکرروانہ کیا گیا، جس کے امیر حضرت زید بن حارثہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تھےحکم یہ تھا ،کہ اگر یہ شہادت سے سرفراز ہوجائیں تو حضرت جعفر اور پھر ان کے بعد حضرت عبدُاللہ بن رَواحہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ لشکرِ اسلام کی قیادت کریں گے۔ تین ہزار مُسلمان مُجاہدوں کا ایک لاکھ رُومی سپاہیوں سے مُقابلہ آسان نہ تھا، مسلمانوں نے جَم کر مقابلہ کیا کئی جلیل القدر صَحابۂ کِرام علیہِمُ الرِّضْوَان شہید ہوگئے۔ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم مدینے میں مِنبر شریف پر تشریف فرما ہوکر، میدانِ مُؤْتَہ میں ہونے والے واقعات کو نہ صرف مُلاحظہ کررہے تھے، بلکہ صَحابہ کِرام علیہِمُ الرِّضْوَان کو بیان بھی فرمارہے تھے۔ حضرت زید بن حارثہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت جعفر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے پرچم تھاما، تو شیطان نے پاس آکر آپ کے دل میں موت سے نَفرت اور زِندہ رہنےکی مَحبّت بڑھائی اور دُنیاکی لالچ دلائی ،آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا: مُومنین کے دلوں میں ایمان پختہ ہونے کا وقت تو اب ہےاور تو مجھے دنیا کی لالچ دے رہا ہے۔(زرقانی علی المواہب،ج3،ص339 تا 345۔سیرت ابن کثیر،ج3،ص466)یہ کہہ کر دُشمنوں پر ٹوٹ پڑے پھر جذبۂ شہادت سے سرشار ہوکر گھوڑے سے نیچے اترے اور آگے بڑھ کر مَردانہ وار مُقابلہ کرنے لگے۔ ایک رومی شخص نے آگے بڑھ کر آپ کے بازو پر ایسا وار کیا کہ بازو جسم سے جدا ہوگیا، آپ نے جھنڈادوسرے ہاتھ میں لے لیا، اس نے دوسرے بازو پر وار کرکے اسے بھی جسم سے جُدا کیا تو آپ نے پرچم اپنی گود میں رکھ کر کٹے ہوئے بازؤں سے اسے تھامے رکھا، یہاں تک کہ تاج ِشہادت سَر پرسَجا کر رُوح جسم سے جد ا ہوگئی۔ بَوقتِ شَہادت آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی عمر مُبارک 33 سال تھی۔ (روض الانف،ج4،ص126) بعدمیں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے جسم پرلگنے والی تلوار اور نیزوں کے نشانات شمار کئے گئے تو مختلف روایتوں کے مُطابق ان کی تعداد 50 یا 90سے بھی زیادہ تھی اور سب نشانات سامنے کی طرف تھے ایک بھی نشان پیٹھ کی جانب نہ تھا۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کامَزارمُبارک مُؤْتَہ (صوبہ کرک اردن) میں واقع ہے۔(تہذیب الاسماء،ج1،ص154) فرشتوں کے ساتھ اڑنے والے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی شان کا اَندازہ سیّدِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کےان کلمات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے: میں گُزشتہ رات جنّت میں داخل ہوا تو دیکھا کہ جَعفر فرشتوں کے ساتھ اڑ رہے ہیں۔(معجمِ کبیر،ج2،ص107، حدیث: 1466) ایک روایت میں ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت جعفر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کے کٹے ہوئے بازؤں کے بدلے انہیں دو پَر عطا فرمائے۔(معجمِ اوسط،ج5،ص164، حدیث: 6932) اسی وجہ سے آپ کو” جعفر طیّار“بھی کہا جاتا ہے۔ (الترغیب والترہیب ،ج2،ص206) اللہ عَزَّوَجَلَّکی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… مُدَرِّس مرکزی جامعۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی
Comments