بدنصیب اور خوش نصیب

ایک   عربی شخص کا بیان ہے کہ میں اپنی بستی سے اس اِرادے سے چلا کہ معلوم کروں کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت اور نیک بخت کون ہے؟میرا گزر ایک ایسے بوڑھے شخص کے پاس سے ہوا ،جس کی گردن میں  رسی بندھی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک بڑا ڈول بھی  لٹک رہا تھا۔ ایک نوجوان اس بوڑھے کو چابک سے مار رہا تھا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا:اس بوڑھے اور کمزور شخص کے بارےمیں تجھے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں؟ اس کی گردن میں پہلے ہی ایک رسی اور ڈول لٹک رہا ہے جس سے یہ پریشان ہے،اس کے باوجود تو اسے چابک سے بھی مار رہا ہے!نوجوان نے کہا:مزید بھی جان لو کہ  یہ میرا باپ بھی ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ تجھے کوئی بھلائی نہ دے!(کیا کوئی اپنے باپ کے ساتھ بھی اس طرح کا ظالمانہ سلوک کرتا ہے؟) نوجوان بولا:”خاموش رہو! تمہیں کیا معلوم! یہ بھی اپنے باپ کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتا تھا اور اس کا باپ بھی اپنے باپ (یعنی اس کے دادا) کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا کرتا تھا۔“میں نے یہ منظر دیکھنے کے بعد کہا:بس! یہی بوڑھا شخص سب سے زیادہ”بدبخت“ ہے۔پھر میں آگے چل دیا یہاں تک کہ ایک نوجوان کے پاس پہنچاجس کی گردن میں ایک زَنبیل(یعنی کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ایک ٹوکری) تھی اور اس میں چوزے کی طرح کمزور ایک بوڑھا شخص تھا۔وہ نوجوان ہر وقت اسے ساتھ رکھتا تھا اور  چوزے کی طرح  اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ میں نے کہا: یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے جواب دیا: یہ میرا باپ ہے جو  اپنی عقل کھو بیٹھا ہے، میں اس کی دیکھ بھال میں لگا رہتا ہوں۔میں نے کہا یہی نوجوان لوگوں میں سب سے زیادہ ”نیک بخت“ ہے۔(المحاسن والمساوی ،ج2،ص193)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حِکایت سے معلوم ہوا کہ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے والا لوگوں میں سب سے زیادہ ”نیک بخت“ہے اور بُرا سلوک کرنے والا سب سے بڑا ”بدبخت“ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی پناہ! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ والدین کے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے کے لئے دنیا و آخرت میں بربادی ہی بربادی ہے۔ والد کی اِطاعت، رضا اور عظمت و شان پر مشتمل تین فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحظہ کیجئے:(1)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اِطاعت والد کی اِطاعت کرنے میں ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، ج1،ص614،حدیث:2255) (2)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی،ج3،ص360،حدیث:1907) (3)والد جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے، اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا حفاظت کرے۔ (ترمذی،ج3،ص359، حدیث:1906) ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہئے اور ان کی اِطاعت کرتے ہوئے ،ان  کا سونپا ہوا ہر جائز کام فوراً بجا لانا  چاہئے۔ہاں اگر وہ  شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اِطاعت  نہ کی جائے  کہ حدیثِ پاک میں ہے :اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اِطاعت نہیں۔(مسلم، ص789،حدیث: 4765) اگر کسی کے والد نے اپنے والد کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے تو اس کی اولاد کو یہ اِجازت نہیں کہ وہ بھی اپنے والد کے ساتھ بدسلوکی ہی کرے۔ یاد رکھئے!”سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتا ہے۔“(مستدرک حاکم،ج5،ص216، حدیث: 7345) اس پُرفتن دور میں بھی جہاں والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے موجود ہیں وہاں  بدسلوکی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ایک اسلامی بھائی کے  بیان کا خلاصہ  ہے کہ میں  جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر جب مسجدسے باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور ایک نوجوان بوڑھے شخص کو مار رہا ہے اور وہ بوڑھا اس نوجوان کا والد تھا۔ اِنکشاف ہوا کہ مال و جائیداد وغیرہ میں حصہ نہ ملنے پر اس نالائق بیٹے  نے مار مار کر اپنے بوڑھے باپ کو لہولہان کر  دیا۔ اپنی عمر بھر کی خوشیوں اور خواہشات کو بچوں کی خوشیوں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے قربان کر کے جینے والا”باپ“جب بڑھاپے میں اپنے بچوں کی شفقت اور حُسنِ سلوک کا طلبگار ہوتا ہے تو اسے جواب میں بے رُخی،طعنے اور پھر Old House کا تحفہ ملتا ہے۔ جن کے والد حیات ہیں، ان سے  میری یہ فریاد ہےکہ وہ خُوش دِلی کے ساتھ اپنے والدکی خِدمت کریں اور ان کا ادب و احترام کر کے جنّت کے حقدار بنیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری


Share