اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے (وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاؕ-)ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کا دشمن بنایا، انسانوں اور جنّوں کے شیطانوں کو،ان میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے بناوٹی باتوں کے وسوسے ڈالتا ہے۔ (پ8،الانعام:112)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر:شیطان دو قسم کے ہیں:(1)شیاطین الجن،یعنی وہ شیاطین جن کا تعلق جنّات سے ہے، جیسے ابلیس لعین اور اس کی اولاد۔(2) شیاطین الانس،یعنی وہ شیاطین جن کا تعلق انسانوں سے ہے اور یہ کفر و گمراہی کی طرف بلانے والے انسان ہیں۔
یہی حقیقت احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا: ’’شیطان آدمیوں اور شیطان جنّوں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔“ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی: کیا آدمیوں میں بھی شیطان ہیں؟ارشاد فرمایا: ہاں۔ (مسند امام احمد،ج8،ص132،حدیث: 21608)
ائمہِ دین فرمایا کرتے کہ شیطان آدمی لوگوں کےلئے شیطان جن سے زیادہ سخت (یعنی نقصان دِہ)ہوتا ہے۔ (تفسیر طبری،ج 12،ص753)اور ائمہ ِ دین کی اس بات کی تائید آیت مبارکہ کے الفاظ سے ہوتی ہے کہ الفاظ ِ قرآنی میں’’ شیاطین‘‘ کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے ’’ انسان‘‘ کا لفظ پہلے ہے اور ’’جنّات‘‘ کا بعد میں۔
ان دونوں قسموں کے شیاطین سے بچنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ جن میں سے ایک آسان طریقہ حدیث میں یہ بیان فرمایا گیا کہ ’’جب شیطان وسوسہ ڈالے تو اتنا کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ تُو جھوٹا ہے۔‘‘(مسند امام احمد،ج4،ص74،حدیث:11320)
مثلاً جنّات والا شیطان دل میں خیال ڈالے کہ اسلام مکمل دین نہیں ہے،یا آخرت کی نجات کےلئے اسلام ضروری نہیں یا شریعت پر عمل کریں گے تو زِندگی مشکل ہوجائے گی، توشیطان کے اِس وسوسے پر اُسے فوراً کہیں کہ تو جھوٹا ہے۔ یونہی اگر انسانوں میں سے کوئی شیطان ایسی باتیں کرےمثلاً کہے کہ معاشی ترقی سود کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے یا ترقی و خوشحالی کے لیےقرآن و حدیث کے پرانے حقیقی معانی بدلنا ضروری ہیں، یااقوامِ عالَم میں عزت و مقام پانے کے لیے اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپنانا ضروری ہے، تو ایسے انسانی شیطان کو بھی کہہ دیا جائے کہ تُو جھوٹا ہےاور میرے نزدیک اسلام ہی حق ہے اور قرآن و حدیث کی ہِدایت ہی حقیقی ہِدایت ہےاور دنیا کی کامیابی اور آخرت کی نجات اسی پر عمل کرنے میں ہے اور قرآن و حدیث کے وہی معانی درست ہیں، جو بزرگانِ دین ہمیشہ سے بیان کرتے آئے ہیں۔
چونکہ ائمہ ِ مِلّت و ناصحین ِ امّت نے انسانی شیطانوں کو زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ اس لئے ان سے بچنے کی زیادہ کوشش کرنی چاہئےاور اس کے طریقے ہمیں قرآن و حدیث میں بتائے گئے ہیں چنانچہ ایک جگہ حکم دیا گیا ہے کہ دین کا مذاق اُڑانے والوں اور ایمان برباد کرنے والے لوگوں کے پاس بیٹھنے سے بھی بچو جیسا کہ حکم ِ خداوندی ہے( وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ ﳲ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعَا) ترجمہ: اور بیشک اللہ تم پر کتاب میں یہ حکم نازل فرماچکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو، جب تک وہ کسی دوسری بات میں مشغول نہ ہوجائیں ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو جاؤ گے۔ بیشک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو جہنّم میں اکٹھا کرنے والا ہے۔(پ5،النساء:140) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اورحدیث مبارک میں گمراہ لوگوں کی باتیں سننے بلکہ ان کے قریب جانے اور انہیں اپنے پاس آنے سے بھی روکنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:آخر زمانے میں دجّال کذّاب (انتہائی دھوکے باز، سخت جھوٹے) لوگ ہوں گے، کہ تمہارے پاس ایسی باتیں لائیں گے جو نہ تم نے سنیں ہوں گی اورنہ تمہارے باپ دادا نے، توان لوگوں سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھو کہ کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور کہیں تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (مسلم،ص17،حدیث:16)
آیت و حدیث کے حکم پر غور فرمائیں کہ دین کو حقیر سمجھنے اور اس کا مذاق اُڑانے والوں کے پاس بیٹھنے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی یہ شدید وعید بھی سُنائی، کہ جوان کی خلافِ اسلام باتوں کے وقت ان کے پاس بیٹھتا اور ان کی باتیں سنتا ہے تو وہ بھی انہی جیسا ہے،اورانہی جیسا ہونے کی وعید عقل و مشاہدے سے بھی سمجھ آتی ہےکہ عوام تو عوام ،بعض اوقات اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ گمراہ کُن لوگوں کی باتیں سن کر آہستہ آہستہ متاثر ہوتے ہیں اور بالآخر وہی عقائد اپنا کر گمراہی کے گڑھے میں جا پڑتے ہیں، اگرچہ وہ اپنی ناسمجھی اور کم علمی سے گُمان کرتے ہیں کہ ہم تو پکے مسلمان ہیں، ہم پر اُن کی باتوں کا کیسے اثر ہوسکتا ہے؟ اس نہ متاثر ہونے کی سوچ رکھنے والے لوگوں کےلئے نیچے بیان کردہ حدیث بہترین رہنمائی ہے ۔ امت کے خیر خواہ، ہمارے آقا و مولا، رسول ِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ ہِدایت نشان ہے، ’’جو دجّال کی خبر سنے اس پر واجب ہے کہ اس سے دور بھاگے کہ خدا کی قسم !آدمی اس کے پاس جائے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں تومسلمان ہوں( یعنی مجھے اس سے کیانقصان پہنچے گا) وہاں اس کے دھوکوں میں پڑکر اسی کا پیرو کار ہو جائے گا۔(ابو داؤد،ج4،ص157،حدیث:4319) یادرکھیں کہ حدیث میں دجّال کے پاس جانے سے گمراہ ہونے کا جو خدشہ بیان کیا گیا ہے ،وہ صرف سب سے بڑے کانے دجّال کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے ،بلکہ ہر طرح کے دجّال کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے اور گمراہی کی طرف بلانے والا ہر فرد اِسی زُمرے میں داخل ہے۔
آج کل صورت ِ حال بڑی نازک ہے، پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا اور یونہی سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنی بات کرنے میں آزاد بیٹھا ہے ۔ کوئی ڈھکے چھپے الفاظ میں اِسلام کا مذاق اڑارہا ہے، تو کوئی کھلے الفاظ میں اسلامی احکام کو قبائلی زمانے کی باتیں قرار دیتا ہے،کسی کو سود خوری جائز نظر آتی ہے، تو کوئی بے پردگی کی تائید میں دلائل دے رہا ہے۔کسی کو موسیقی میں کوئی قباحت نظر نہیں آرہی اور کسی کو گانے باجے کے بغیر دین خشک سا محسوس ہوتا ہے۔ کسی کو مذہبی وضع قطع والے ایک آنکھ نہیں بھاتے توکسی کو علماء کا شرعی احکام بتانا ہی زہر لگتا ہے ۔ کسی کو داڑھی والے مشکوک و غیرمعتبر نظر آتے ہیں تو کوئی داڑھی رکھنے کومعاذ اللہ فاسقوں کی نشانی قراردے رہا ہے، کوئی اَحادیث کومذہبی داستانیں قرار دے کر کھلم کھلا انکار کررہا ہے تو کوئی تھوڑا سا گھما پھرا کراحادیث کو صرف تاریخی ریکارڈ کہہ کر انکارِ حدیث کا مقصد پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کسی کی نظر میں ائمہ دین کے اِجتہاد آج کے دَور میں ناکارہ ہیں، تو کسی کے خیال میں قرآن و حدیث ہی اب ناقابلِ عمل ہوچکے ہیں۔ کوئی مفسّرین و محدّثین و فقہاء کے کاموں کو رَدی کی ٹوکری قرار دیتا ہے، تو کسی کی نظر میں مسلمانوں کے سارے علمی کارنامے قصّہ پارینہ بن چکے ہیں ،بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض لوگ کہنے لگے ہیں کہ آخرت میں نجات کےلئے اِسلام کوئی ضروری نہیں۔ معاذاللہ ۔
دینی علوم سے محروم ،صرف اسکول، کالج کی تعلیم رکھنے والے دعوت دے رہے ہیں کہ دین صرف ہم سے سیکھو، جبکہ اسکرین پر جلوہ نما ہونے والے دین کی الف، بے نہ جاننے کے باوجود دین کے ہر معاملے میں رائے دینا اپنا حق سمجھتے اور اس رائے کو قبول کرنا دوسروں کےلئے فرض قرار دیتے ہیں ، جبکہ جن حضرات کی رائے حقیقت میں معتبر ہے یعنی علماء دین اور مفتیانِ شرع ِ متین ، ان کی رائے کو یکسر فضول کہہ دیا جاتا ہےبلکہ علماء دین کے بولنے پر ہی اعتراض ہے کہ یہ مولوی ہمیں دین سکھانے والے کون ہوتے ہیں ؟ الامان والحفیظ۔
الغرض دین سے دور کرنے والے، مسلمانوں کے دین و ایمان سے کھیلنے والے اور ان کی عقیدت و اعتقاد میں نقب زنی کرنے کی کوشش کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں اور ایسی ہی صورت حال کی غیبی خبر ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم دے چکے ہیں چنانچہ فرمایا:عنقریب لوگوں پر ایسے سال آئیں گے کہ جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا،جس میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا بنا کر پیش کیا جائے گا،خیِانت کرنے والے کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور رُوَیْبِضَہ خوب بولے گا۔عرض کی گئی: رُوَیْبِضَہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا:لوگوں کے اہم معاملات میں مداخلت کرنے والا حقیر اور کمینہ شخص۔ (ابنِ ماجہ،ج 4،ص377، حدیث:4036)
ایسے لوگوں کو روکنا اور سمجھانا دونوں بہت مشکل ہیں، لیکن یہ تو ممکن ہے کہ ہم قرآن و حدیث کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی خاطر ایسے لوگوں کے پاس نہ بیٹھیں، نہ ان کی باتیں سنیں اور نہ ہی تحریریں پڑھیں، ورنہ یاد رکھئے کہ آج کا زمانہ فتنوں کا زمانہ ہے اور ایمان کے لٹیرے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔اگر اپنے ایمان کی فکر نہ کی اور ہر کسی کی تحریر و تقریر پڑھنے، سننے میں لگے رہے تو کہیں ہمارا قیمتی ترین اثاثہ یعنی ایمان نہ چِھن جائے، لہٰذا عافیت و نجات اسی میں ہے کہ جنّاتی شیاطین سے زیادہ انسانی شیاطین سے خود کو دور رکھیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مفتی
محمد قاسم عطاری
٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments