اَنبیا کو بھی اَجل آنی ہے مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حَیات مِثلِ سابِق وُہی جِسْمانی ہے
اُس کی اَزواج کو جائز ہے نِکاح اُس کا تَرکہ بٹے جو فانی ہے
یہ ہیں حَیِّ اَبدی ان کو رضا صِدقِ وعدہ کی قَضا مانی ہے
(حدائقِ بخشش،ص372مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
الفاظ و معانی :اَجل:موت۔فقط آنی:صرف ایک آن (گھڑی، ساعت)کےلئے۔مثلِ سابق:پہلےکی طرح۔اَزواج: بیویاں۔ ترکہ:وِرْثہ۔حَیّ اَبَدی:ہمیشہ زندہ رہنے والے۔ صِدقِ وعدہ کی قَضا:وعدے کی تکمیل کے لئے موت۔
شرح:اللہکریم کے وعدے کی تکمیل کے لئے اَنبیائے کرام عَلَیہمُ الصلوٰۃ والسلام پر صرف ایک آن کے لئے موت طاری ہوتی ہے جس کے بعد مُبارک رُوح ان کے پاکیزہ جسم میں دوبارہ لوٹاکر اُنہیں زندگی عطا کی جاتی ہے۔اللہپاک کے تمام نَبی جِسمانی حَیات کے ساتھ زندہ ہیں۔ اپنے مَزارات میں نماز پڑھتے اور روزی دئیے جاتے ہیں۔حضراتِ انبیا عَلَیہمُ الصلوٰۃ والسلام کی یہ زندگی شہیدوں کی زندگی سے بھی اَرفع واعلیٰ ہے۔قراٰنِ مجید میں نہ صرف شُہداء کے زندہ ہونے کا بیان کیا گیا بلکہ انہیں مُردہ گمان کرنے سے بھی منع کیا گیا،اس کے باوجود شہید کا ترکہ بھی تقسیم ہوتا ہے اور عِدّت کے بعد اس کی بیوہ کسی اور سے نکاح بھی کرسکتی ہے،اس کے برعکس اَنبیائے کرام عَلَیہمُ الصلوٰۃ والسلامکے وِصالِ ظاہری کے بعد نہ تو ان کا تَرکہ تقسیم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی اَزواج کا کسی اور سے نکاح ہوسکتا ہے۔
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:انبیا عَلَیہمُ الصلوٰۃ والسلام کی موت محض ایک آن کو تصدیقِ وعدۂ الہٰیہ کے لئے ہوتی ہے، پھر وہ ویسے ہی حیاتِ حقیقی دُنیاوی و جِسمانی سے زندہ ہوتے ہیں جیسے اس سے پہلے تھے، رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اَلْاَنْبِیَاءُ اَحْیَاءٌ فِيْ قُبُوْرِ ہِمْ یُصَلُّوْنَ(یعنی انبیاء اپنے مزاراتِ طیبہ میں زندہ ہیں، نمازیں پڑھتےہیں)۔(مسندابی یعلیٰ،ج3،ص216،حديث: 3412( (فتاویٰ رضویہ ،ج15،ص613ملخصاً)
تُو زندہ ہے واللہ تُو زندہ ہے واللہ
مِرے چشمِ عالَم سے چُھپ جانے والے
(حدائقِ بخشش،ص158)
نوٹ:وِصالِ ظاہری کےبعداَنبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کادوبارہ زندگی پانا،اپنی امّت کیلئے دعائے مغفرت فرمانا، شبِ معراج تمام اَنبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا مسجدِ اقصیٰ میں جمع ہونا اور اللہ پاک کے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاان سب کی اِمامت فرمانا قراٰن و حدیث اور اَولیا و عُلما کے اَقوال سے ثابت ہے۔مَزید تفصیل جاننے کے لئے علمائے اہلِ سنّت کی کتابوں بالخُصوص ”مَقالاتِ کاظمی“(از غزالیِ زماں حضرت علامہ مولانا سیّد احمد سعید کاظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی) کی دوسری جلد کا مُطالعہ فرمائیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… ماہنامہ فیضان مدینہ،باب المدینہ کراچی
Comments