تاجر اسلامی بھائیو! کاروباری ترقی کے لئے جائز تدابیر اختیار کرنے میں حرج نہیں لیکن شریعتِ اسلامیہ ایسے طریقوں سے روکتی ہے جن سے مُعاشرتی بگاڑ پیدا ہو، معاشی ترقی کا پہیہ رُک جائے، حِرْص و ہَوَس کو فروغ ملے اور لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو، لیکن بُرا ہو نفس وشیطان کا کہ یہ انسان کو ”لالچ“ کے جال میں پھنسا کر ناجائز و حرام ذرائع سے مال جمع کرنے پر اُبھارتے ہیں، انہی میں سے ایک طریقہ ذخیرہ اندوزی (Hoarding) بھی ہے جو منع اور سخت گناہ ہے۔(بہار شریعت،ج2،ص725، ملخصاً) ذخیرہ اندوزی کسے کہتے ہیں؟ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی مہنگائی کے زمانے میں غلّہ خریدلے اور اُسے فروخت نہ کرے بلکہ اس لئے روک لے کہ لوگ جب پریشان ہوں گے تو خوب مہنگا کرکے بیچوں گااوراگر یہ صورت نہ ہو بلکہ فصل میں غلہ خریدتا ہے اور رکھ چھوڑتا ہے کچھ دنوں کے بعد جب گراں ہو جاتا ہے بیچتا ہے یہ نہ اِحْتِکار ہے نہ اس کی ممانعت۔(بہار شریعت،ج2،ص725، ملخصاً) صدرُالشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں: غلہ (اناج) کے علاوہ دوسری چیزوں میں اِحْتِکار (یعنی ذخیرہ اندوزی) نہیں۔(بہار شریعت،ج2،ص725) غلہ روکنے کا وبال نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس قسم کی ذخیرہ اندوزی کی مَذَمَّت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو مہنگائی بڑھانے کی نیت سے چالیس دن غلہ روکے تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور ہوگیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے بیزار ہوگیا۔(مشکاۃ المصابیح،ج 1،ص536، حدیث:2896) حکیم الامّت مفتی احمدیار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: چالیس دن کا ذکر حدبندی کے لئے نہیں، تاکہ اس سے کم اِحتکار جائز ہو، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو اِحتکار کا عادی ہوجائے اس کی یہ سزا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 4،ص290) بے حسی کا مُظاہَرہ بعض تاجر حضرات موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مارکیٹ سے غلہ غائب کرکے اپنے گوداموں میں محفوظ کرلیتے ہیں اور کچھ عرصے بعد (جب غلہ مہنگا ہوجاتا ہے اور لوگ پریشان ہوتےہیں تو) مارکیٹ میں لاکر اس کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں۔ مالدار خریدار تو مہنگے داموں پر بھی خرید لیتے ہیں لیکن غریب بے چارہ آزمائش میں آجاتا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کے نقصانات (1)ذخیرہ اندوزی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی کا سبب ہے۔ (2)اس طرح کمائے ہوئے مال سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔ (3)مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کیلئے ذخیرہ اندوزی کرنے والا حدیثِ پاک کے مطابق جُذام (کوڑھ) کے مرض اور مُفِلسی کا شِکار ہوجاتا ہے۔ (ابن ماجہ،ج3،ص14، حدیث: 2155) (4)حضرت سَیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فرمان کے مطابق ایسے شخص کا دل سخت ہوجاتا ہے۔(احیاء العلوم،ج2،ص93) (5)ایسے شخص کو قلبی بے چینی اور مالی نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ حکایت ذخیرہ اندوزی سے بچنے اور مسلمانوں کی خیرخواہی کے معاملے میں بُزرگانِ دین کی سوچ نہایت عمدہ ہوا کرتی تھی، ایک بزرگ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے گندم سے بھری کشتی بصرہ بھیج کر اپنے وکیل کو خط لکھا کہ یہ بصرہ پہنچتے ہی فروخت کردینا اگلے دن تک مُؤخَّر نہ کرنا۔ اتفاقاً وہاں بھاؤ (Rate) کم تھا تو تاجروں نے وکیل کو دگنا نفع کمانے کیلئے جمعہ تک مُؤخَّر کرنے کا مشورہ دیا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور کئی گنا نفع کمالیا۔ معلوم ہونے پر ان بزرگ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے وکیل کو خط لکھا کہ اے فلاں! ہم اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ تھوڑے نفع پر ہی قناعت کر لیتے ہیں مگر تم نے اس کا خلاف کیا لہٰذا جب تمہارے پاس یہ خط پہنچے تو سارا مال بصرہ کے فُقَرا پر صدقہ کر دینا ۔(احیاء العلوم،ج 2،ص93، ملخصاً)
تاجر اسلامی بھائیو! مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا ذہن بنائیے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ذات پر کامل بھروسا رکھئے، جو مل جائے اس پر قناعت کیجئے کیونکہ رزق وہی ملتا ہے جو نصیب میں لکھا ہوتا ہے، آپ بھی بزرگانِ دین کا اندازِ تجارت اپنائیے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے آپ کا کاروبار پھلے پھولے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ذمہ دار شعبہ بیانات دعوتِ اسلامی،المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی
Comments