تذکرۂ حضرت سیدنا عمار  بن یاسر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہما

ایک صحابی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہفرمانے لگے:میں نے رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہمراہی میں شیطان اور انسان سے جنگ لڑی ہے ، کسی نے حیرت سے پوچھا: انسان سے جنگ لڑی ہے یہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر شیطان سے کس طرح جنگ لڑی؟ ارشاد فرمایا:ایک مرتبہ ہم نے دورانِ سفر کسی جگہ پڑاؤ کیا  تو میں نے اپنا مشکیزہ اٹھایا اور پانی بھرنے کےلئے چل پڑا ، مجھے دیکھ کر نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا: کوئی تمہارے  پاس آئے گا اور پانی بھرنے سے روکے گا۔ جب میں کنویں کے قریب پہنچا توایک کالا کلَوٹا شخص بڑی تیزی سے  میری جانب لپکا اور کہنے لگا: جب تک کوئی گناہ نہیں کروگے میں پانی نہیں بھرنے دوں گا، یہاں تک کہ ہم دونوں میں لڑائی شروع ہوگئی اچانک میں نے اس کوپچھاڑ دیا اور  قریب پڑا ہوا پتھر اٹھاکراس پر دے مارا جس کی وجہ سے اس کی ناک ٹوٹ گئی اور چہرہ بگڑ گیا، اس کے بعد مشکیزے میں پانی بھرا اور بارگاہِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم میں حاضر ہوگیا، پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا؟ میں نے عرض کی: جی ہاں! اور پورا قصہ گوش گزار کردیا ، ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ کون تھا؟ عرض کی : جی نہیں، فرمایا: وہ شیطان تھا۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص190 ماخوذاً)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شیطان سے جنگ کرنے، اس کا حلیہ بگاڑنے والے یہ جاں نثار، وفادار اور فرمانبردار صحابی رسول حضرت سیّدنا اَبُو الیَقظان عمار بن یاسر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہما تھے۔ قبولِ اسلام: عرب کی سرزمین اسلام کی نورانی کرنوں سے مُنوّر ہوئی توآپ کے ساتھ ساتھ  والدماجد حضرت یاسر اور والدہ ماجدہ حضرت بی بی سُمَیَّہ اور بھائی حضرت عبداللہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُم کا سینہ بھی ایمان کی کِرنوں سے جگمگانے لگا۔(طبقات ابن سعد،ج 3،ص186) دینِ اسلام کی خاطر قربانیاں:چونکہ یہ مقدس  گھرانا غلامی کی زندگی بسر کررہا تھا اس لئے کفارِ قریش پورے  گھرانے کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکالیف دینے لگے، حضرت بی بی سمیہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا ایک نِڈر اور بہادر خاتون تھیں ایک مرتبہ ابو جہل نے گالیاں بکتے ہوئے حضرت بی بی سمیہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا کی ناف کے نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لَت پَت ہو کر گرپڑیں اور اسلام کی سب سے پہلی شہید خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔(تاریخ ابن عساکر،ج 43،ص367) پھر والد ماجد حضرت یاسر اور  بھائی حضرت  عبد اللہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُمَا بھی کفار و مُشرکین کا ظلم و ستم سہتے سہتے جام ِ شہادت سے سیراب ہوکر اَبدی میٹھی نیند سو گئے۔(الاصابہ،ج6ص500) ان مقدس حضرات کی شہادت کے بعد بھی کفارِ مکہ کو حضرت عمار رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ پر رحم نہ آیا کبھی ایمان سے لبریز سینے پر بھاری پتھر(Stone) رکھ دیتے تو کبھی پانی میں غوطے دے کر بے حال کردیتے اور کبھی آگ سے جسم داغدار کرکے نڈھال کر دیتے تھے۔(الکامل لابن اثیر،ج 1،ص589) یہاں تک کہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پیٹھ مبارک ان زخموں سے بھر گئی، بعد میں کسی نے آپ کی پیٹھ کو دیکھا تو پوچھا: یہ کیسے نشانات ہیں؟ ارشاد فرمایا: کفارِ قریش مجھے مکہ کی تپتی ہوئی پتھریلی زمین پر ننگی پیٹھ لٹاتے اور سخت اذیتیں اور تکالیف پہنچاتے تھے، یہ ان زخموں کے نشانات ہیں۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص188)فضائل و مناقب: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی قربانیوں کے صِلے (Reward)میں بارگاہِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے ملنے والے چند انعامات دیکھئے: جنت عمار کی مُشتاق ہے۔ (ترمذی،ج 5،ص438، حدیث:3822) جس نے عمار سے بغض رکھا اللّٰہ  تَعَالٰی  نے اسے مبغوض رکھا۔(مسند امام احمد،ج 6،ص6، حدیث:16814) ایک بار شانِ عمار کایوں ذکر فرمایا: کتنے ہی ایسے کمبل پوش ہیں کہ لوگ جن کی کوئی پروانہیں کرتے لیکن اگر وہ کسی بات کی قسم کھالیں تو اللہ تَعَالٰی ضروران کی قسم کو پوری فرمادیتاہے اور ان ہی لوگوں میں عمار بن یاسرکا شمار ہوتا ہے۔(معجم اوسط،ج4،ص194، حدیث: 5686) ایک مرتبہ یوں فرمایا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے عمار کو سر سے لے کر پاؤں تک ایمان سے بھر دیا ہے، عمار کے خون اور گوشت میں ایمان سرایت کرچکا ہے۔( تاریخ ابن عساکر،ج43،ص393) عادات مبارکہ: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی گفتگوبہت ہی کم اور خاموشی طویل ہواکرتی تھی جبکہ اکثرو بیشتر خوفِ خدا میں ڈوبے رہتے اور آنے والے فتنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 43،ص456) صلوٰۃُ الاوّابین: آپ رَضِیَ اللہُ  عَنْہ روزانہ مغرب کی نماز کے بعد چھ (6) رکعت نفل ضرور پڑھتے تھے  کسی نے وجہ پوچھی تو  فرمایا:میں نے اپنے محبوب آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو مغرب کے بعد چھ رکعتیں ادا کرتے دیکھا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ جو مغر ب کے بعد چھ رکعتیں ادا کرے گا اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔(معجمِ اوسط،ج7،ص255، حدیث: 7245) فکرِ آخرت: ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں ایک مکان تعمیر ہورہا تھا مالک ِمکان نے آپ کو دیکھا توکہا:آئیے اور میرا گھردیکھ کر بتائیے کہ کیسا بنا ہے؟  گھر دیکھنے کے بعد آپ نے فرمایا: بڑا مضبوط بنایا ہے، خوب غورو خوض بھی کیا ہے لیکن عنقریب تمہیں موت کے شکنجے میں پھنس جانا ہے۔(تاریخ ابن عساکر،ج 43،ص445) ایک دفعہ کچھ لوگ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ بیماری کا تذکرہ ہواتوایک دیہاتی نے فخریہ اندا ز میں کہا : میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا،یہ سنتے ہی آپ نے فرمایا: تُو ہم میں سے نہیں ہے کیونکہ کامل ایمان والے کو مصیبتوں کے ذریعے آزمایا جاتا ہے اور اس کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔(شعب الایمان،ج 7،ص178، حدیث:9913) سردار بن سردار کے اَشعار: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے چند اشعار بھی منقول ہیں چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہِ رحمۃُ  الرَّحمٰن فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نےحضرت بلال رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو خرید کر آزاد کیا تو سردار بن سردار عمار بن یاسر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُما نے اشعار کہے (پہلے شعر کا ترجمہ یہ ہے) اللہ جزائے خیر دے بلال اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ابوبکر کو، اور اُمَیّہ اور ابوجہل کو رُسوا کرے۔(فتاویٰ رضویہ ،ج 28،ص511،ماخوذاً) مجاہدانہ کارنامے: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سرکارِ دوعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ (تاریخ ابن عساکر،ج43،ص356) جنگِ یمامہ میں ایک موقع پر مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی تو آپ ٹِیلے پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے کہا: اے مسلمانوں کے گروہ! جنت تو امن والی جگہ ہے ، بھاگتے کہاں ہو؟ میری طرف آؤ !میں عمار بن یاسر ہوں، اس دوران ایک کافر نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ پر حملہ کیا تو آپ کا ایک کان کَٹ کر زمین پر گرا اور پھڑکنے لگا،اس کے باوجود آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نہایت جوش و خروش سے جہاد میں مصروف رہے۔(طبقات ابن سعد،ج 3،ص192) ایک مرتبہ کسی نے آپ کو کٹے ہوئے کان پر طعنہ دیا تو آ پ نے فرمایا:تم مجھےطعنہ دے رہے ہو حالانکہ  یہی کٹا ہوا کان مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ یہ راہِ خدا میں قربان ہوا ہے۔ کوفہ کی گورنری: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نےامیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں 21 مہینے تک کوفہ  کی گورنری کے فرائض سر انجام  دئیے۔ شہادت: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بروز بدھ 7 صفر المظفر سن 37 ہجری میں جنگِ صِفِّین میں  حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم کے دفاع میں لڑتے ہوئے  جامِ شہادت نوش فرمایا،اس وقت آپ کی عمر مبارک 93سال تھی۔(تاریخ ابن عساکر،ج43،ص443، 449،359)

قضا نمازيں جلد ادا کرلیجئے

صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:جہنّم میں وَیل نامی ایک خوفناک وادی ہے جس کی سختی سے خود جہنّم بھی پناہ مانگتا ہے۔جان بوجھ کر نَماز قَضا کرنے والے اُس کے مُستحِق ہیں۔(بہارِ شریعت،ج1،ص434ملخصاً)

معلوم ہوا بِلاعُذرِ شَرعی نَمازقضا کر دینا سخت گناہ ہے، اِس پر فرض ہے کہ اُس کی قضا پڑھے اور سچّے دل سے توبہ بھی کرے، توبہ اُسی وقت صحیح ہے جبکہ قضا پڑھ لے اس کو ادا کئے بِغیر توبہ کئے جانا توبہ نہیں  کہ جو نَماز اس کے ذمّے تھی اس کو نہ پڑھنا تو اب بھی باقی ہے اور جب گناہ سے باز نہ آیا تو توبہ کہاں  ہوئی؟(درمختار،ج 2،ص626تا 627) لہٰذا قضا ہونے والی نمازوں کا حساب لگا کر انہیں جلد ادا کرلیجئے، اس سے پہلے کہ آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے۔

(قضا نمازوں کے احکام جاننے کےلئے امیر اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ”قضا نمازوں کا طریقہ(حنفی) “پڑھئے)

 


Share