”ہر کام اللہ کی مرضی سے نہیں ہوتا“ کہنا کیسا؟
سُوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے اپنے دوست بکر سے کہا:”یہ چیز تمہیں نہیں مل سکتی۔“ بکر نے جواب دیا:”اللہ چاہے گا تو مل جائے گی۔“ زید نے کہا:”ہر کام اللہ کی مرضی سے نہیں ہوتا، کچھ کاموں میں بندوں کا بھی اختیار ہوتا ہے۔“ سوال یہ پوچھنا ہے کہ بکر کا یہ جواب کیسا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ میں زید پر حکمِ کُفر بالکل واضح ہے اور اس پر فرض ہے کہ وہ توبہ و تجدیدِ ایمان کرے اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح کرے کیونکہ بکر کے قول یعنی ”اللہ چاہے گا تو مل جائے گی۔“ کے جواب میں جو اس نے جملہ بولا کہ ”ہر کام اللہ کی مرضی سے نہیں ہوتا۔۔الخ“ اس کا واضح طور پر صاف مطلب یہی بنتا ہے کہ کچھ کام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے چاہنے کے بغیر بھی ہوجاتے ہیں حالانکہ ایسا عقیدہ رکھنا صریح کُفر اور اسلامی عقیدوں کا انکار ہے اس لئے کہ قراٰن و حدیث میں بیان کردہ صحیح عقیدہ یہ ہے کہ چھوٹا بڑا ہر کام اللّٰہ تعالٰی کے چاہنے سے ہی ہوتا ہے، اس کی چاہت اور ارادے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا حتّٰی کہ اگر وہ نہ چاہے تو بندہ کچھ چاہ بھی نہیں سکتا چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: (وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۲۹)) ترجمۂ کنز الایمان: اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ چاہے اللہ سارے جہان کا رب۔(پ30، التکویر:29)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
محمدساجد العطاری عبدہ المذنب محمد فضیل رضا العطاری
رشوت کے تحفے کا حکم
سُوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے رشوت کے طور پر بکر کو کوئی تحفہ دیا لیکن اب زید نے اس گناہ سے توبہ کرلی تو کیا جو گفٹ دیا تھا وہ واپس لینا ضَروری ہے یا یہ معاف بھی کر سکتا ہے؟ وہ گفٹ باقی موجود ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رشوت کے طور پر جو چیز دی جائے شرعی طور پر لینے والا اس کا مالک نہیں بنتا بلکہ اس کا مالک وہی رہتا ہے جس کی وہ چیز تھی۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بکر جس نے رشوت لی ہے اس پر فرض ہے کہ وہ زید کی چیز اسے لوٹا دے اور زید کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنی چیز کا تقاضا کرے۔ ہاں اگر زید اب توبہ کرچکا ہے اور لینے والے کو وہ چیز معاف کرنا چاہتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں:(1)اگر بکر وہ چیز ہلاک و تَلَف کرچکا ہے تو اب زید مُعاف کرسکتا ہے اور معاف کرنے کا مطلب یہ بنے گا کہ تَلَف کرنے کی وجہ سے بکر کے ذمّہ پر چیز کا جو تاوان لازم آیا تھا اس کا مطالبہ ساقط و معاف ہوگیا۔ (2)اور اگر وہ چیز بکر کے پاس باقی ہے تو اب زید کے معاف کرنے سے بھی اس چیز کا مالک بکر نہیں بنے گا بلکہ وہ چیز بدستور زید کی رہے گی کیونکہ عین چیز کو معاف نہیں کیا جاتا بلکہ معاف تو اس کو کیا جاتا ہے جو کسی کے ذمّہ پر لازم ہو۔ لہٰذا اب اگر زید وہ چیز بکر کی ملکیت میں دینا چاہتا ہے تو وہ نئے سِرے سے اس کو ہِبہ کرے یعنی بطورِ گفٹ دے تو بکر کے قبول کرتے ہی وہ چیز اب بکر کی ملکیت میں چلی جائے گی۔
تنبیہ: یہ واضح رہے کہ اس نیت سے رشوت لینا یا دینا کہ بعد میں ہبہ کا یہ طریقہ اپنا لیں گے یہ رشوت کو جائز نہ کردے گا بلکہ رشوت حرام ہی رہے گی اور ہبہ کے اس طریقے سے گناہ سے چھٹکارہ نہیں بلکہ بعض صورتوں میں یہ ہبہ بھی رشوت ہی کہلائے گا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
محمدساجد العطاری عبدہ المذنب محمد فضیل رضا العطاری
بچّے گود دینے کا ایک اہم مسئلہ
سُوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کی رضا کے ساتھ اپنے دو بیٹے اپنی سالی کو گود دئیے تھے۔ بچّوں کی عُمْر اس وقت ایک دن تھی۔ اب ان کی عُمْریں8اور10 سال کی ہیں، اب زید اپنے بچّے ان سے واپس لینا چاہتا ہے۔ کیا وہ واپس لینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟بچّوں سے رَضاعت کا رشتہ قائم نہیں کیا گیا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہمارے مُعاشَرےمیں جب کو ئی شخص اپنا بیٹا کسی عزیز کو گود دیتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب وہ واپس نہیں لے گا وہ بچہ گود لینے والے کے پاس رہے گا اور اس کی مکمل تعلیم و تربیت کا انتظام بھی یہ ہی کرے گا تو گویا کہ بچہ گود دینے کے ضمن میں عُرفاً واپس نہ لینے کا وعدہ ہوتا ہے اور اَلْمَعْرُوْف کَالْمَشْرُوْط یعنی عرفاً ثابت شدہ بات ایسی ہے جیسے صراحتاً کہی ہو لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کو وعدہ کی پاسداری کرنی چاہئے بچے واپس نہ لینے چاہئیں جبکہ وہاں بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی حرج لازم نہ آتا ہو اور اگر تعلیم و تربیت درست طریقہ پر نہ ہو رہی ہو تو بچے واپس لے لینے چاہئے اور یہ وعدہ خلافی بھی نہیں کہلائے گی جبکہ دیتے وقت واپس نہ لینے کا ذہن ہو۔
بہر حال یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اپنا بچہ کسی کو گود دینا جائز ہے مگر گود دینا کوئی ایسا عَقْد(مُعاہَدہ ) نہیں جس سے وہ حقیقی والد سے لا تعلق ہوجاتا ہو اور گود لینے والا اس کا مالک بن جاتا ہو یا یہ اس کا حقیقی بیٹا بن جاتا ہو کہ کہا جائے حقیقی والد واپس نہیں لے سکتا بلکہ صرف اتنا ہے کہ والد نے اپنا حقِّ پرورش دوسرے کو دے دیا اور یہ حق دوسر ے کو دینے کے بعد واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس کی نظیر یہ مسئلہ ہے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جس عورت کو حقِّ پرورش حاصل ہو اگر وہ اپنا حق ساقط کرکے دوسری عورت کو دے دے پھر بچے واپس لینا چاہے اور وہ پرورش کی اہل بھی ہو تو وہ واپس لے سکتی ہے اور اگر بچے کو پالنے والے کے پاس چھوڑنے کی وجہ سے احکامِ شرع کی خلاف ورزی کا خوف ہو تو بچہ ضرور واپس لے لینا چاہئے۔امامِ اَہلِ سنّت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن سے جب اسی طرح کا سوال پوچھا گیا جس میں لے پالک لڑکی کا ذِکر تھا اور وہ مُرَاہِقَہ (یعنی وہ لڑکی جو بالغ ہونے کے قریب ہو) یا بالغہ ہو چکی تھی اور لے کر پالنے والا اجنبی تھا تو اس میں چونکہ بے پردگی اور فتنہ کا مَظِنَّہ (یعنی فتنہ کاگُمان ہونےکا مقام) تھا اور باپ واپس لینا چاہتا تھا اس لئے امامِ اَہلِ سنّت نے جواباً بِالتَّاکِیْد فرمایا: ”اب کہ بالغہ ہوئی یا قریبِ بلوغ پہنچی جب تک شادی نہ ہو ضرور اس کو باپ کے پاس رہنا چاہئے یہاں تک کہ نو برس کی عُمْر کے بعد سگی ماں سے لڑکی لے لی جائے گی اور باپ کے پاس رہے گی نہ کہ اجنبی جس کے پاس رہنا کسی طرح جائز ہی نہیں، بیٹی کرکے پالنے سے بیٹی نہیں ہوجاتی، اس نے جو خرچ کیا اپنی اولاد بنا کر کیا،نہ کہ بطورِ قرض، لہٰذا واپسی کا بھی مستحق نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ،ج13،ص413)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــہ
محمد ہاشم خان العطاری المدنی
Comments