امام احمد رضا خان، ”اعلیٰ حضرت“کیوں؟

امام احمد رضا خان، اعلیٰ حضرت کیوں؟

*مفتی محمد ہاشم خان عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء

 امام احمدرضاکواعلیٰ حضرت کیسےکہاجانےلگا؟ یہ بات روزِ روشن کی طرح عَیاں (Clear) ہےکہ نام اس لئے رکھے جاتےہیں کہ ان کے ذریعے ایک شخصیت کا دوسری سے اِمتِیاز ہوتاہے،اگرآدمی اپنے سارے بچوں کےنام ایک ہی نام پررکھ لے اور ان میں امتیاز کےلئےکوئی دوسرا لفظ استعمال ہی نہ کرے تو اس سے سامِعین و مُخاطَبِین کو جو دشواری و پریشانی ہوگی اس کا ہر ایک اندازہ کرسکتا ہے، جبکہ لوگوں کو دیئے جانے والے اچھے القابات عموماً ان کی ظاہری وباطنی خوبیوں اورخداداد صلاحیتوں کو دیکھ کردیئے جاتے ہیں، لہٰذا جو شخص علم وعمل کا جامِع، دین ِاسلام کے لئے اپنا سب کچھ قُربان کرنے کا جذبہ رکھنے والا، خوفِ خدا اور عشقِ مُصطفےٰ جس کے راہ نُما ہوں تو پھراس کو دیئے جانے والے اَلقابات بھی ایسے ہوں جو اسے اپنے مُعاصِرین سے ممتاز کر سکیں، امامِ اہلِ سنت مُجدِّد دین و ملّت امام احمدرضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہی ہے، آپ کا گھرانہ علم دوست تھا اور آپ کے زمانے میں بھی کئی علمی شخصیات موجود تھیں لیکن ان تمام کے درمیان اللہ پاک نے آپ کو جو مَقام ومرتبہ عطا کیا تھا جب اس کاظُہورآپ کے خاندان کے افراد اور دیگر عِلمی شخصیات پر ہوا تو انہوں نے اِمتِیازی تَعارُف کے لئے آپ کو اپنی بول چال میں اعلیٰ حضرت کہناشروع کردیا، مَعارِف و کمالات اورفضائل و مَکارِم میں اپنے مُعاصِرین کے درمیان بَرتَری کے لحاظ سے یہ لفظ اپنے مَمْدوح کی شخصیت پر اس طرح مُنطَبِق ہوگیاکہ آج صرف پاک و ہند کے عوام و خواص ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے عاشقان ِرسول کی زبانوں پر چڑھ گیا اور اب قبولِ عام کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کیاموافق کیا مخالف! کسی حلقے میں بھی اعلیٰ حضرت کہے بغیرشخصیت کی تعبیر (Introduction) ہی مکمل نہیں ہوتی۔ (سوانح اعلیٰ حضرت، ص5بتغیرٍقلیل)

جس طرح ہر پھول کوگلاب نہیں کہا جاتا اسی طرح اعلیٰ حضرت کے دور میں اور بعد بھی حضرت تو بہت گُزرے اور ہیں بھی، لیکن ہر ایک کو اعلیٰ حضرت نہیں کہا جاتا۔

وسوسہ اگر شیطان یہ وسوسہ دلائے کہ تم نے تو اعلیٰ حضرت کو اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی بڑھا دیا کیونکہ حضور علیہ السَّلام کو تو صرف حضرت کہا جاتا ہے جبکہ امام احمد رضاکو تم اعلیٰ حضرت کہتے ہو؟

علاجِ وسوسہ اس کے جواب سے پہلے ایک اُصول ذہن میں رکھئے کہ تقابُل (Comparison) جب بھی ہوتا ہے تو وہ مُعاصِرین سے ہوتا ہے نہ کہ اپنے پہلے والوں سے جیسے حنفیوں کے عظیم پیشوا، ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃُ اللہِ علیہ کے لئے ”امامِ اعظم“ کا لفظ بطورِ لَقب استعمال ہوتا ہے، یہ ان کےہم زمانہ دیگرائمۂ اسلام کو دیکھتے ہوئے بولا جاتا ہے، اگر ان کا تَقابُل بھی ان سے پہلے والوں سے کیا جاتا توان کے لئے بھی امامِ اعظم بولنے پر وہی اعتراض ہوتا جو امامِ اہلِ سنّت کو اعلیٰ حضرت بولنے پر ہے حالانکہ بڑے بڑے علمائے اسلام نے اس لقب (یعنی امام اعظم) کو حنفیوں کے عظیم پیشوا ابوحنیفۃ نعمان بن ثابت کے لئے استعمال کیا ہے اور آج تک کسی اہلِ علم نے اس پر اعتراض بھی نہیں کیا، اسی طرح شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے لئے اعلیٰ حضرت کا لقب آپ کے ہم زمانہ لوگوں کے مُقابِل بولا جاتا ہے، لہٰذا شیطان کا اسےکِھینچ تان کر زمانۂ نبوی تک پہنچا دینا اور پھر لوگوں کو وسوسے ڈالنا اپنے اندر پائی جانے والی گندگیوں میں سے ایک گندگی کو ظاہِر کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ ذیل میں اب کچھ وہ باتیں بیان کی جارہی ہیں جوکہ ہر عاشقِ رسول کو اس بات پر اُبھارتی ہیں کہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے مُعاصِرین اور بعد والوں کے لئے اعلیٰ حضرت ہی ہیں چنانچہ

اہلِ سنّت کے امام اور فتنوں کی روک تھام اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ مسلمانانِ بَرّعظيم کے دورِ اِبتِلاء کی اَہَم ترین شخصیت اور صاحبِ بَصیرت راہ نُما تھے انہوں نے جس وقت آنکھ کھولی اس وقت سارا ہند تاج ِبرطانیہ کے زیرِ نگیں تھا، اس وقت مَقامی سطح پر مسلمانوں کو اور بھی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا تھا، ان مشکلات میں سب سے زیادہ تکلیف دَہ اَمر یہ تھا کہ مسلمانوں کی زَبُوں حالی کو دیکھ کر کفار و مشرکین اور مُبْتَدِعِین کے کئی گروہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد و نظریات سے لے کر فُروعات و معمولات تک میں کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر رہے تھے اور قراٰن و سنّت کے مخالف عقائد و نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے، قَرْنِ اوّل سے لے کر اس دور تک جو نظریات اور معمولات بزرگانِ دین نے قراٰن و سنت کی روشنی میں درست پاکر اپنائے اور ان کے مُحِبِّین و مُتَوسّلین ان پر ہر دور میں عمل پیرا رہے ان کو نہ صرف خلافِ شرع بلکہ کفر و شرک قرار دے کر اجتِماعی طور پر پوری اُمّت پر کفر و شرک کے فتوے لگانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، اسی طرح مُلحِدین و مُرتدین کا فتنہ بھی زوروں پر تھا اور وہ بھی مسلمانوں کے دین و ایمان پر طرح طرح سے حملے کر رہے تھے ایسے میں اعلیٰ حضرت تَنِ تنہا ان فتنوں کا مُقابلہ کرنے کے لئے میدانِ عمل میں اُترے اور قراٰن و سنّت کا جھنڈا اٹھا کر ہر فتنے کا مَردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے حق کو واضح کیا اور باطل کو باطل ثابِت کرکے مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے بارے میں حتَّی المقدور اور کامیاب کوششیں کر کے نہ صرف بَرِّعظیم بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر لیا اور اب رہتی دنیا تک جب جب لوگ ان فتنوں کی کسی بھی نئی یا پرانی شکل کو دیکھیں گےاوراس کے مُقابِل اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے قلمی جہاد کو دیکھیں گے اور اس کی برکت سے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہیں گے تو اپنی نِیم شَبِی میں اور آہ ِسَحر گہی میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کو بھی شکریہ کے ساتھ یاد رکھیں گے۔بَرِّعظیم کی علمی روایت کے ایک نِہایت دَرَخْشَنْدَہ ستارے اور عظیم مُحدِّث و حافظِ بخاری مولانا وَصِی احمد سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ کے چند جملے مسلمانان بَرِّعظیم کی اعلیٰ حضرت علیہ الرَّحمہ سے نِیازمَندِی واحسان مندی کے جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں شاگرد و خلیفۂ اعلیٰ حضرت بیان فرماتےہیں کہ ایک بار(مُحدِّث اعظم ہند) سیّد محمد مُحدِّث کچھوچھوی نے حضرت مُحدِّث سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ سے دریافت کیاکہ آپ کو شَرفِ بَیعَت مولاناشاہ فضلُ الرّحمٰن گنج مراد آبادی سے حاصل ہے مگر کیا وجہ ہے آپ کو جو مَحبت اعلیٰ حضرت سے ہے وہ کسی دوسرے سے نہیں، اس پر مولانا وَصی احمد سُورتی نےارشاد فرمایا سب سے بڑی دولت وہ علم نہیں ہےجومیں نے مولوی اسحاق مُحَشِّیِ بخاری سےپائی اور وہ بیعت نہیں ہے جو گنج مراد آباد میں نصیب ہوئی بلکہ وہ ایمان ہے جومَدارِنجات ہے جسےمیں نے صرف اعلیٰ حضرت سے پایا۔([1])

دیکھا جائے تو اعلیٰ حضرت کو اعلیٰ حضرت قرار دئیے جانے کے لئے یہی ایک بات کافی ہے کیونکہ اعلیٰ حضرت کا معنیٰ ہے اپنے وقت کی سب سے بڑی شخصیت اور ہم دیکھتے ہیں کہ سُطورِ بالا میں جن فتنوں کا ذکر ہوا ہے ان کی بِیخ کُنی اور عوام و خواص مسلمین کے سامنے اِحقاق ِحق و اِبطالِ باطل کے فرض کو اعلیٰ حضرت سے بڑھ کر کسی نے ادا نہیں کیا، اعلیٰ حضرت نہ صرف خود اس کارِ خیر میں پوری تَن دہی سے مصروف تھے بلکہ اپنے خُلفاو تَلامذہ کو بھی اس طرف مُتوجّہ کر رکھا تھا اور باطل قوّتوں کے مُقابِل حق پَرستوں کی ایک فوج تھی جو اعلیٰ حضرت کی علمی راہ نُمائی میں حق کی خاطر اپنی زَبان اور قلم کی صلاحیتیں بروئے کار لارہی تھی۔

علوم وفنون کےجامع اوریادگارِسَلف اس کےساتھ ساتھ ہم دیکھتےہیں کہ اعلیٰ حضرت کی ذاتِ مُبارَکہ اور بھی اوصاف و کمالات کی جامِع تھی جن کی بنا پر اعلیٰ حضرت کو اعلیٰ حضرت یعنی اپنے زمانے کی سب سے بڑی شخصیت کہا گیا اور بَجا طور پر کہا گیا مثلاً اگر یہ دیکھیں کہ اعلیٰ حضرت جن عُلُوم و فُنُون پر دَسْتْرَس رکھتے تھے ان کے زمانے میں کوئی دوسرا آدمی ایسا نظر نہیں آتا جو اِنفرادی طور پر اتنے زیادہ علوم و فُنون پر دَسترس رکھتا ہو، قدیم فَلْسفیَانہ علوم وفُنون کی بنیاد سے لے کر ان علوم کی جدید صورتوں کی شاخوں تک اعلیٰ حضرت اس طرح کی واقفیت اور تَبَحُّر کے حامِل تھے کہ انہیں دیکھ کر ان علوم وفنون کے بانِیان و اَکابِرین کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔

 مَنقولات یعنی قراٰن و سنّت اور ان سے اَخْذ کردہ علوم کے بارے میں بھی اعلیٰ حضرت کی وُسعتِ مطالعہ، مُجتہِدانہ بصیرت اور اِحاطۂ معلومات کی صلاحیت دیکھنے والوں کو اَنگشت بَدَنداں کر دیتی تھی اور آج بھی ان کی کُتُب و فتاویٰ کا قاری ان اوصاف پر حَیرت زَدہ ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر ان کو اعلیٰ حضرت نہ کہا جاتا تو ان کی عظمت و شان کے اعتِراف میں بڑی کمی رَہ جاتی ۔

امام احمدرضابطوراعلیٰ حضرت اہلِ علم کی نظرمیں سُطورِ بالا میں امامِ اہلِ سنّت کی جن چند ایک خُصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا اور ان کےعلاوہ دیگرخصوصیات کااعتِراف ہر دور کے اہلِ علم نے کیا ہے اور سیّدی اعلیٰ حضرت کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، یاد رہے کہ یہ سِلسلہ فقط بَرِّعظیم کے علما تک محدود نہیں تھا بلکہ عرب و عَجَم میں جہاں جہاں اس گلِ سَرسبز کی خوشبو پہنچی وہاں وہاں سے تعریف و توصیف کے نذرانے آپ کی بارگاہ میں پیش کئے گئے، ذیل میں پہلے عرب دنیا کےاورپھر بَرِّعظیم کے فقط چند اہلِ علم کے تعریفی کلمات ملاحظہ فرمائیے جو اس بات کا بَیِّن ثُبوت ہیں کہ اعلیٰ حضرت صرف ایک آدھ فرد کی نظر میں اعلیٰ حضرت نہیں تھے بلکہ عرب وعجم کے اہلِ علم ان کی زُلفِ طَرَحدارِعلم وفضل کے اَسیر تھے۔

(1)شیخ عبداللہ نابْلُسی مدنی فرماتے ہیں: وہ نادرِ روزگار، اس وقت اور اس زمانے کا نور، معزّز مَشائخ اور فُضَلا کا سردار اور بلاتأمل زمانے کا گوہرِ یَکتا۔ ([2])

(2)دمشق کے علامہ شیخ محمد القاسمی تحریر فرماتے ہیں: آپ فضائل و کمالات کے ایسے جامع ہیں جن کے سامنے بڑے سے بڑا ہیچ ہے، وہ فضل کے باپ اور بیٹے ہیں، ان کی فضیلت کا یقین دشمن اور دوست دونوں کو ہے ان کی مثال لوگوں میں بہت کم ہے۔([3])

(3)شیخ محمد بن عطارد الجاوی فرماتے ہیں: بے شک اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اس زمانے میں علمائے محققین کے بادشاہ ہیں اور ان کی ساری باتیں سچی ہیں گویاوہ (یعنی ان کا کلام ) ہمارے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے جو اللہ کریم نے ان کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا۔([4])

(4)ڈاکٹر مفتی سیّد شجاعت علی قادری فرماتے ہیں: اعلیٰ حضرت میں امام احمد بن حنبل اور شیخ عبدا لقادر جیلانی کا سا زہدو تقویٰ تھا، ابوحنیفہ اور ابو یوسف کی سی ژرْف نِگاہی (گہری نظر) تھی، رازی و غزالی کا سا طَرزِ استدلال تھا، وہ مُجدِّدِ اَلفِ ثانی اور منصور حَلَّاج کا سا اِعلائے کلمۃُ الحق کا یارا رکھتا تھا، دشمنانِ اسلام کے لئے اَشِدّاءُ عَلَی الْکُفَّار کی تفسیر اور عاشقانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے لئے رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ کی تصویر تھا۔ ([5])

(5)بَرِّعظیم کے معروف مؤرِّخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی بیان کرتے ہیں: حضرت مولانا احمد رضا خان کے متعلق میں صرف اس قدر کہنے پر کفایَت کرتا ہوں کہ عُلوم ِدینیہ میں انہیں جو دَسترس حاصل تھی وہ فی زمانہ فقیدُ المثال تھی دوسرے علوم میں بھی یَدِ طُولیٰ حاصل تھا۔([6])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شیخُ الحدیث و مفتی دارُالافتاء اہلِ سنّت، لاہور



([1])حیات اعلیٰ حضرت، ص 137مفہوماً

([2])سرتاج الفقہا، ص7

([3])ایضاً، ص8

([4])فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں، ص28

([5])فاضلِ بریلوی اور ترکِ موالات، ص53

([6])خیابان رضا، ص 43بتغیرٍقلیل


Share