تذکرۂ صالحین
اعلیٰ حضرت کی حاضر جوابی
*مولانا نوید کمال عطاری مدنی
ماہنامہ اگست 2024
الله ربّ العزّت نے امامِ اہلِ سنّت امام احمدرضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کو کثیر علمی، عملی اور فکری خوبیوں سے نوازا، ان میں سے ایک بڑی خوبی حاضر جوابی بھی ہے۔ آپ کی بارگاہ میں آنے والے کسی بھی مسئلے یا استفتاء کا جواب بلا کسی تردد اور تامل کے فی البدیہہ جاری ہوتا، آپ کی سوانح میں کثیر ایسے واقعات و ملاقاتیں منقول ہیں جو آپ کی حاضر جوابی کو عیاں کرتی ہیں۔ آئیے ان میں سے چند نمونے ملاحظہ کریں:
علم هیأت میں مہارت
مولانا حسین صاحب بریلوی کا بیان ہے کہ جناب حاجی علاء الدین صاحب، میرٹھ کے ایک بہت بڑے رئیس اور بڑے دیندار تھے جنہوں نے گیارہ حج کیے تھے۔ حاجی صاحب نے ایک مسئلہ هیأت کا دریافت کیا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: اس کی دس قسمیں ہیں پہلی کا نام یہ ہے، دوسری کا یہ، تیسری کا یہ اسی طرح دسوں کا نام بتایا۔ پھر فرمایا: ان دسوں میں سے سب سے پہلی قسم کی بیسں قسمیں ہیں۔ پہلی کا نام یہ ہے، دوسری کا یہ، تیسری کا یہ اسی طرح بیسوں کا نام نمبر وار بتایا۔ پھر فرمایا کہ ان بیسں میں سے جو سب سے پہلے ہے اس کی چالیس قسمیں ہیں اتنا سن کر حاجی صاحب نے عرض کیا: میں سب کو معلوم نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ اس ترتیب سے بتانے پر اس قدر حیرت ہوتی ہے کہ گویا آپ یہی مسئلہ ملاحظہ فرما کر تشریف لائے تھے۔ ([i])
اعلیٰ حضرت کی حاضر جوابی
جناب سید ایوب علی صاحب رضوی کا بیان ہے کہ بعد نمازِ جمعہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ پھاٹک میں تشریف فرما ہیں حاضرین کا مجمع ہے لوگ سوال پوچھتے جاتے ہیں آپ رحمۃُ اللہِ علیہ جواب دیتے جا رہے ہیں۔ اس وقت جناب سید محمود جان قادری برکاتی نوری عرض کرتے ہیں حضور میں دیکھتا ہوں کہ ہر مسئلہ کا جواب آپ کی نوک زبان پر ہے کبھی کسی مسئلہ کی نسبت حضور کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ کتاب دیکھ کر جواب دیا جائے گا۔ یہ سن کر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کسی قدر آب دیدہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:سید صاحب! قبر میں مجھ سے اگر ہر مسئلہ کی نسبت سوال ہوگا کہ اس میں تیرا کیا عقیدہ ہے تو وہاں کتابیں کہاں سے لاؤں گا۔([ii])
دندان شکن جواب
سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے کسی نے کہا کہ انگریز کہتے ہیں داڑھی رکھنا فطرت کے خلاف ہے کیونکہ بچہ بغیر داڑھی کے پیدا ہوتا ہے اس لیے داڑھی منڈوا دینی چاہیے۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے برجستہ ارشاد فرمایا: پھر تو دانت بھی تڑوا دینے چاہیے کیونکہ بچہ بغیر دانتوں کےپیدا ہوتا ہے۔
اس پر کسی نے مجلس میں اٹھ کر کہا: واہ حضرت! کیا دندان شکن جواب دیا ہے۔
ہر شخص کے لئے اسم ِاعظم جدا ہے
سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ بعد نمازِ جمعہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ پھاٹک میں تشریف فرما ہیں حاضرین کا چاروں طرف مجمع ہے ایک صاحب دریافت کرتے ہیں کہ اسمِ اعظم کیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ ہر شخص کے لیے اسمِ اعظم جدا جدا ہے اس کے بعد ہی ایک جانب سے نظر مبارک حاضرین پر دورہ فرماتی ہے اور آپ رحمۃُ اللہِ علیہ ہر ایک سے بلا تکلف فرماتے جاتے ہیں یہ تمہارے لیے اسمِ اعظم ہے، یہ تمہارے لیے اسمِ اعظم ہے چنانچہ فقیر (سید ایوب علی) سے فرمایا یَالَطِیفُ یَا اَللہُ پڑھا کرو۔ پھر آخر میں فرمایا کہ ہر ایک صاحب کے نام میں جو حروف ہیں ان کے بقاعدہ ابجد جو مجموعی تعداد ہے اس کے ہم عدد اسمائے الٰہیہ میں ایک اسم ورنہ دو اسم دگنی مرتبہ ہر روز پڑھا کریں یہ اس کے لیے مفید ہے۔
مثلاً ایوب علی کے اعداد ۱۲۹ ہیں اور لَطِیف کے بھی ۱۲۹۔ لہٰذا دس روز سے فقیر ۲۵۸ بار بلا ناغہ پڑھ لیتا ہے اور اس کے بے شمار برکات بکرمہ تعالیٰ میں نے پائے ہیں۔([iii])
ریاضی کا پیچیدہ مسئلہ
علمِ رِیاضی میں آپ یگانۂ روزگار تھے۔ چُنانچہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضِیاء الدِّین جو کہ رِیاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تَمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آئے۔ ارشاد ہوا: فرمائیے! اُنہوں نے کہا: وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عَرض کروں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: کچھ تو فرمائیے۔ وائس چانسلر صاحب نے سوال پیش کیا تو اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اُسی وقت اس کا تشفی بخش جواب دے دیا۔ اُنہوں نے انتہائی حیرت سے کہا کہ میں اس مسئلے کے لئے جرمن جانا چاہتا تھا اتفاقاً ہمارے دینیات کے پروفیسر مولا ناسید سلیمان اشرف صاحب نے میری راہنمائی فرمائی اور میں یہاں حاضر ہو گیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی مسئلے کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بصد فرحت و مسرت واپس تشریف لے گئے اور آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی شخصیت سے اس قدر متأثر ہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صوم و صلوٰۃ کے پابند ہو گئے۔ ([iv])
استقبال ِقبلہ کا درست مفہوم
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ دہلی کی کسی مسجد میں نماز پڑھ کر وظیفے میں مشغول تھے کہ ایک صاحب نماز پڑھنے کے لیے تشریف لائے اور آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگے۔ جب قیام کیا تو دیوار مسجد کو تکتے رہے جب رکوع میں گئے تو ٹھوڑی اوپر اٹھا کر دیوار مسجد کی طرف دیکھتے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے اس وقت تک اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ بھی وظیفے سے فارغ ہو چکے تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے ان کو پاس بلا کر مسئلہ بتایا کہ نماز پڑھنے میں کس کس حالت میں کہاں کہاں نگاہ ہونی چاہئے اور فرمایا بحالتِ رکوع پاؤں کی انگلیوں پر نگاہ ہونی چاہئے۔ یہ سن کر وہ قابو سے باہر ہو گئے اور کہنے لگے واہ صاحب بڑے مولانا بنتے ہیں، میرا منہ قبلہ سے پھیر دیتے ہیں نماز میں قبلہ کی طرف منہ ہونا ضروری ہے۔ یہ سن کر اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے ان کی سمجھ کے مطابق کلام فرمایا اور دریافت کیا کہ سجدہ میں کیا کریں گے؟ پیشانی زمین پر لگانے کے بدلے ٹھوڑی زمین پر لگائیں گے؟ یہ چبھتا ہوا فقرہ سن کر بالکل خاموش ہو گئے اور ان کی سمجھ میں بات آگئی کہ قبلہ رو ہونے کے یہ معنیٰ ہیں کہ قیام کے وقت نہ کہ از اول تا آخر قبلہ کی طرف منہ کر کے دیوارِ مسجد کو تکا کرے۔([v])
محرم کے کھچڑے کا ثبوت
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے کسی نے محرم کے کھچڑے کے متعلق سوال کیا کہ یہ کہاں سے ثابت ہے؟ تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا: رہا یہ کہ کھچڑا کہاں سے ثابت ہوا، جہاں سے شادی کا پلاؤ (اور) دعوت کا زردہ ثابت ہوا، یہ تخصیصات عرفیہ ہیں نہ (کہ) شرعیہ۔([vi])
یعنی جس طرح شادی کے زردہ اور پلاؤ کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں اسی طرح محرم کے کھچڑے کے ناجائز ہونے پر بھی کوئی دلیل نہیں۔
محدث سورتی کا احترام
پیلی بھیت میں ایک دعوت میں حضرت وصی احمد محدث سورتی صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ اور اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ تشریف فرما تھے دستر خوان بچھانے سے پیشتر میزبان نے آفتابہ و طشت لیا کہ ہاتھ دھلایا جائے۔ حضرت محدث صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ نے عام عرفی دستور کے مطابق میزبان کو اشارہ کیا کہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے ہاتھ پہلے دھلائے جائیں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے برجستہ فرمایا کہ آپ محدث ہیں اور عالم بالسنہ ہیں آپ کا فیصلہ بالکل حق اور آپ کی شان کے لائق ہے کیونکہ سنت یہ ہے کہ ایک مجمع مہمانوں کا ہو تو سب سے پہلے چھوٹوں کا ہاتھ دھلایا جائے اور آخر میں بڑے کا ہاتھ دھلایا جائے تا کہ بزرگ کو ہاتھ دھونے کے بعد دوسروں کے ہاتھ دھونے کا انتظار نہ کرنا پڑے اور کھانا ختم ہو جانے کے بعد سب سے پہلے بڑے کا ہاتھ دھلایا جائے۔ میں شروع میں ابتدا کرتا ہوں لیکن کھا چکنے کے بعد آپ کو ابتدا کرنی ہوگی۔ مولانا سید محمدصاحب محدث کچھو چھوی رحمۃُ اللہِ علیہ کا بیان ہے کہ اس دستر خوان پر میں بھی حاضر تھا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے ارشاد پر حضرت محدث صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ نے ہاتھ بڑھاکر طشت کو اپنی طرف کھینچا کہ سب سے پہلے میرے ہاتھ دھلائے جائیں اور اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے مسکراتے ہوئے چہرے سے فرمایا کہ اپنے فیصلہ کے خلاف عملدر آمد آپ کی شان کے خلاف ہے۔ یہ دلچسپ اور خوش گوار نقشہ جب آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو اس کا لطف تازہ ہو جاتا ہے۔([vii])
محدث کچھو چھوی کی فتویٰ نویسی
ملک العلماء مفتی ظفر الدین بہاری رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمت میں ایک مرتبہ پندرہ بطن کا مناسخہ (علم میراث کی اصطلاح) آیا، چونکہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی رائے میں مولانا سید محمد صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ نے فن حساب کی تکمیل با ضابطہ کی تھی اور آنہ پائی کا حساب بالکل آسانی سے کرتے تھے لہٰذا یہ مناسخہ انہیں کے سپرد کیا گیا۔ مولانا سید محمد صاحب رحمۃُ اللہِ علیہکا بیان ہے کہ ان کا سارا دن اسی مناسخہ کے حل کرنے میں لگ گیا، شام کو اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی عادتِ کریمہ کے مطابق جب بعد نماز عصر پھاٹک میں نشست ہوئی اور فتاویٰ پیش کیے جانے لگے تو میں نے بھی اپنا قلم بند کیا ہوا جواب اس امید کے ساتھ پیش کیا کہ آج اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی دادلوں گا۔ پہلے استفتا سنایا، فلاں مرا اور اتنے وارث چھوڑے اور فلاں مرا اتنے وارث چھوڑے۔ غرض پندرہ موتیں واقع ہونے کے بعد زندوں پر ان کے حق شرعی کے مطابق ترکہ تقسیم کرنا تھا۔ مرنے والے تو پندرہ تھے لیکن زندہ وارثوں کی تعداد پچاس سے او پر تھی۔ استفتا ختم ہوا کہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا کہ آپ نے فلاں کو اتنا فلاں کو اتنا حصہ دیا ہو گا۔ اس وقت میرا حال دنیا کی کوئی زبان ظاہر نہیں کر سکتی تھی۔ علوم اور معارف کی یہ حاضرجو ابیاں جس کی کوئی مثال سننے میں نہیں آئی۔([viii])
مخالفین کے خطوط
(جو خطوط اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمت میں آتے تھے ان میں سے) بعض غیر مہذب حضرات گالی نامہ بھی بھیجا کرتے۔ اسی قسم کا ایک خط گالیوں سے بھرا ہوا کسی صاحب کا آیا۔ میں (مفتی ظفر الدین بہاری) نے چند سطر پڑھ کر اس کو علیحدہ رکھ دیا اور عرض کیا کہ کسی وہابی نے اپنی شرارت کا ثبوت دیا ہے۔ ایک مرید نے جو نئے نئے حلقہ ارادت میں آئے تھے اس خط کو اٹھا لیا اور پڑھنے لگے۔ اتفاق وقت کہ بھیجنے والے کا جو نام لکھا تھا واقعی یا فرضی وہ ان صاحب کے اطراف کے تھے اس لیے ان کو اور بھی زیادہ رنج ہوا۔ اس وقت تو خاموش رہے لیکن جب اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ مغرب کی نماز کے بعد مکان تشریف لے جانے لگے حضرت کو روک کر کہا اس وقت جو خط میں نے پڑھا جسے مولانا ظفر الدین صاحب نے ذرا ساپڑھ کر چھوڑ دیا تھا کسی بد تمیز نے نہایت ہی کمینہ پن کو راہ دی ہے۔ اس میں گالیاں لکھ کر بھیجی ہیں۔ میری رائے ہے کہ ان پر مقدمہ کیا جائے ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے تاکہ دوسروں کے لیے ذریعۂ عبرت و نصیحت ہو ورنہ دوسروں کو بھی ایسی جرأت ہوگی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا کہ تشریف رکھیے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اندر تشریف لے گئے اور دس پندره خطوط دست مبارک میں لیے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا کہ ان کو پڑھیے۔ ہم لوگ متحیر تھے کہ کس قسم کے خطوط ہیں۔ خیال ہوا کہ شاید اسی قسم کے گالی نامے ہونگے جن کے پڑھوانے سے یہ مقصود ہو گا کہ اس قسم کے خط آج کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک زمانے سے آ رہے ہیں۔ میں اس کا عادی ہوں لیکن خط پڑھتے جاتے تھے اور وہ صاحب کا چہرہ خوشی سے دمکتا جاتا تھا۔ آخر جب سب پڑھ چکے تو اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: پہلے ان تعریف کرنے والوں بلکہ تعریف کا پل باندھنے والوں کو انعام و اکرام جا گیر اور عطیات سے مالا مال کر دیجیے پھر گالی دینے والوں کو سزا دلوانے کی فکر کیجیے۔ انہوں نے اپنی مجبوری و معذوری ظاہر کی اور کہا کہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ ان سب کو انعام و اکرام دیا جائے کہ نہ صرف ان کو بلکہ ان کی پشتہا پشت کو کافی ہو مگر میری وسعت سے باہر ہے۔ فرمایا جب آپ مخلص کو نفع نہیں پہنچا سکتے تومخالف کو نقصان بھی نہ پہنچائیے۔([ix])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(مدرس جامعۃ المدینہ نواب شاہ)
Comments