تذکرۂ صالحین
امامِ اہلِ سنّت کی مہارت علمِ حدیث کے دو پہلو
*مولانا شہزاد عنبر عطاری مدنی
ماہنامہ اگست 2024
سیدی اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی شخصیت ہر علمی و عملی پہلو سے کامل نظر آتی ہے۔ آپ ماہِر ترین مفتی بھی ہیں، بےمثال عالمِ دین بھی ہیں اور صِرْف عاشقِ رسول نہیں بلکہ عاشقانِ رسول کے امام ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ علم حدیث کے ماہر عالم بلکہ اپنے وقت کے اَمِیْرُ المؤمِنِیْن فِی الْحَدِیث ہیں۔
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی علمِ حدیث میں مہارت کے حوالے سے 2 پہلو بہت اہم ہیں:
(1)علمی اور فَنِّی اعتبار سے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کو علمِ حدیث میں کیسی مہارت تھی؟ یعنی حدیثِ پاک کے جو درجات ہیں، حدیثِ پاک کی مختلف اقسام عُلَمائے کرام نے مقرر کی ہیں، ان درجات اور اقسام کو سمجھنے میں، حدیثِ پاک کا معنی اور مفہوم سمجھنے میں، حدیثِ پاک سے علم کی باتیں اخذ کرنے میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کو کیسی مہارت تھی؟
(2)احادیث پڑھنے میں، احادیث یاد کرنے، یاد رکھنے اور دوسروں تک پہنچانے میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کا انداز کیا ہے؟
(1)علمِ حدیث میں علمی و فنی مہارت
وہ عُلَمائے کرام جنہوں نے باقاعدہ علمِ حدیث کو سیکھا، اَحادیث کو سمجھا، یاد کیا اور اس میں مہارت حاصِل کی، ان عُلَمائے کرام کے مختلف طبقات اور درجے ہیں، کسی کو مُحَدِّث کہا جاتا ہے، کسی کو حافِظُ الحدیث کہتے ہیں،کسی کو حُجَّت کہا جاتا ہے، کوئی شیخُ الحدیث ہوتے ہیں۔ اسی طرح حدیثِ پاک کے عُلَمائے کرام کا ایک درجہ ہے: اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیث۔ علمِ حدیث کا وہ عالِم جو اپنے زمانے کے تمام عُلَمائے کرام میں سب سے زیادہ حدیثِ پاک کا ماہِر ہو، اسے اَمِیْرُ المؤمِنِیْن فِی الْحَدِیث کہا جاتا ہے۔
سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے دَوْرِ مبارک کے ایک بہت بڑے محدّث علامہ وصی احمد سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ جو کہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے دوست بھی تھے، انہوں نے 40سال حدیثِ پاک کی خِدْمت کی اور حدیثِ پاک کی سب سے معتبر کتاب بخاری شریف ان کو زبانی یاد تھی، اتنے پائے کے مُحَدِّث تھے۔
محدّث وَصِی احمد سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ کے ایک شاگرد سید محمد اشرفی میاں جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ خود بھی بعد میں بہت بڑے محدّث بنے اور محدّث اعظم ہند کہلائے۔
ایک بار محدّث اعظم ہند سید محمد اشرفی میاں رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے استادِ محترم محدّث وصی احمد سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمت حاضر تھے، انہوں نے سُوال پوچھا: عالی جاہ! آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کا ذِکْر بہت کثرت سے کرتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ شاگرد کا یہ سُوال سُن کر مُحَدِّث وصی احمد سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور جوشِ عقیدت میں تڑپ کر فرمایا: میں اور میرا خاندان اَلحمدُ لِلّٰہ! پہلے سے مسلمان ہیں مگر جب سے میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے ملنے لگا ہوں، مجھے ایمان کی حَلَاوت مل گئی ہے، بَس جن کے صدقے سے ایمان کی حَلَاوت نصیب ہوئی ہے، ان کی یاد سے اپنے دِل کو تسکین دیتا رہتا ہوں۔
محدّث اعظم ہند سید محمد اشرفی میاں رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: استادِ محترم مُحَدِّث وصی احمد سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ کا یہ ایمان افروز جواب سُن کر میں نے عرض کیا: عالی جاہ! کیا اعلیٰ حضرت علمِ حدیث میں آپ کے برابر ہیں؟ سُورتی علیہ الرَّحمہ نے برجستہ فرمایا: ہر گز نہیں۔ پھر فرمایا: شہزادے! آپ کچھ سمجھے کہ اس ”ہرگز نہیں“ کا کیا مطلب ہے؟ سنیئے! اعلیٰ حضرت اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیْث ہیں اگر میں سالہا سال اعلیٰ حضرت سے علمِ حدیث سیکھتا رہوں، ان کی شاگردی اختیار کروں، تب بھی میں ان کے قدموں کے برابر نہیں پہنچ سکوں گا۔(ماہنامہ المیزان بمبئی، ص247)
ماہرینِ علمِ حدیث کے لئے اجازتِ سَنَد
محدّثینِ کرام اپنے شاگردوں کو یا جن کو حدیثِ پاک بیان کریں، اُن کو سَنَدِ حدیث کی اجازت دیتے ہیں اور یہ اُصُول ہے کہ جس کو یہ اجازت حاصِل نہ ہو، وہ اُس حدیثِ پاک کو اپنی سَنَد سے بیان نہیں کر سکتا۔ یہ ایک اُصُول کی بات ہے اور اس اُصُول کی تفصیلات ہیں، جنہیں عُلَمائے کرام ہی سمجھتے ہیں۔
دوسرے حج کے موقع پر جب اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ مکۂ مکرمہ حاضِر ہوئے تو اس وقت مِصْر، شام اور کئی ملکوں سے عُلَمائے کرام حج کے لئے آئے ہوئے تھے۔
اَلحمدُ لِلّٰہ! اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کو اللہ پاک نے شُہرت عطا فرمائی ہے، جب ان عُلَمائے کرام کو پتا چلا کہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت، شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ تشریف لائے ہوئے ہیں تو یہ عُلَمائے کرام جُوق دَر جُوق اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی خِدْمت میں حاضِر ہونے لگے، ان میں کئی عُلَما تھے جنہوں نے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے عِلْمِ دِیْن کے بعض مشکل مسائِل سمجھے، کئی وہ تھے جنہوں نے بعض عُلُوم حاصِل کئے اور اُس وقت کے بڑے بڑے محدّثین کی ایک تعداد تھی جنہوں نے اس موقع پر باقاعِدہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے حدیثِ پاک کی سَندیں بھی حاصِل کیں۔
یہ تمام اجازتِ اَسْنَاد اَلْاِجَازَاتُ الْمَتِیْنَۃ کے نام سے شائع بھی ہو چکی ہیں۔
پیلی بھیت میں 3 گھنٹے کا بیان
1303ہجری میں محدث وصی احمد سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ نے پیلی بھیت میں مَدَرسۃُ الْحَدِیث کی بنیاد رکھی، اس موقع پر مُحَدِّث سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ نے مُلْک کے بڑے بڑے عُلَمائے کرام کو دعوت دی، عظیم الشان اجتماع کا اِنعقاد کیا گیا، اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ بھی تشریف فرما تھے، محدّث سُورتی رحمۃُ اللہِ علیہ نے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی خِدْمت میں بیان کرنے کی درخواست پیش کی، چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے بڑے بڑے عُلَما، محدّثین، مفکرین کی موجودگی میں علمِ حدیث کے موضوع پر 3 گھنٹے علمِ حدیث کے موضوع پر زبردست علمی نِکات بیان فرما ئے، جب اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے بیان ختم کیا تو محدّث سہارنپوری رحمۃُ اللہِ علیہ کے بیٹے بےساختہ اُٹھے اور آگے بڑھ کر جلدی سے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے ہاتھوں کو بوسہ دِیا اور فرمایا: اس وقت اگر والدِ ماجد (احمد علی سہارنپوری رحمۃُ اللہِ علیہ) ہوتے تو آپ کی تبحّرعلمی کی دل کھول کر دادا دیتے۔(جہانِ امام احمد رضا، 10/388)
(2)اعلیٰ حضرت اور حدیثِ پاک کا مُطَالعہ
ایک بار سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا: آپ نے حدیثِ پاک کی کون کون سی کتابیں دَرْس کی (یعنی پڑھی، پڑھائی) ہیں؟ اس پر اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے پہلے تو علمِ حدیث کی چند کتابوں کے نام گنوائے مثلاً مُسْنَدِ امامِ اعظم، مؤطا امام محمد، کتابُ الآثار، کتابُ الخراج، شرح مَعانیُ الآثار، مؤطا امام مالک، مسندِ شافعی، مسندِ امام احمد، سُننِ دارمی، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ، مشکوٰۃ، بُلُوغُ المرام، عَمَلُ الْیَوْم وَ اللَّیْلَۃ، الترغیب و الترہیب یُوں کتابوں کے نام گنوانے کے بعد فرمایا: یہ اور ان سمیت علمِ حدیث کی 50سے زائِد کتابیں میرے دَرْس و تَدْریس اور مُطَالعہ میں رہیں۔(جہانِ امام احمد رضا، 10/462)
سُبْحٰنَ اللہ! 50 سے زائِد کتابیں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے دَرْس و تَدْریس اور مُطَالعہ میں رہی ہیں۔ بظاہِر شاید محسوس ہو رہا ہو کہ ”صِرْف 50 کتابیں...!“
اگر ان کتابوں کی تفصیلات میں جائیں تو یہ صِرْف نہیں ہے، 50کتابوں کا مطلب ہے: ہزاروں صفحات اور لاکھوں حدیثیں۔ یہ چند کتابیں جن کے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے نام گنوائے ہیں، صرف ان کی ہی تفصیل دیکھی جائے تو یہ ٹوٹل:49 جلدیں ہیں، جن کے کل صفحات 29 ہزار 900 سے زائد اور ان میں کل احادیث1 لاکھ34 ہزار سے زائد ہیں۔
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اور تبلیغِ حدیث
بےشک اَحادیث پڑھنا، انہیں سمجھنا بڑے کمال کی بات ہے، پھر اس سے بھی بڑا کمال ہے: اَحادیث کو یاد رکھنا، انہیں دوسروں تک پہنچانا۔ الحمد للہ! اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ احادیث پڑھتے بھی تھے، انہیں یاد بھی رکھتے تھے اور دوسروں تک پہنچایا بھی کرتے تھے۔ آپ جو بات کہتے اُسے قراٰنی آیات یا اَحادیث سے ثابت کیا کرتے، آپ سے سُوال ہوتا تو اس کے جواب میں کَثْرت سے احادیث ذِکْر کرتے، اُن اَحادیث کے مَعَانی بیان فرماتے، اَحادیث کی شَرْح بیان کیا کرتے تھے، جیسا کہ
*سوال ہوا: سجدۂ تعظیمی (یعنی کسی کو خُدا سمجھ کر نہیں بلکہ اسے بندہ سمجھ کر صِرْف اس کی تعظیم کے لئے، اسے سجدہ کرنا) جائِز ہے یا نہیں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے قراٰنی آیات اور 40احادیث کی روشنی میں ثابت کیا کہ غیرِ خُدا کی تعظیم کے لئے سجدہ کرنا پہلی شریعتوں میں جائز تھا، ہماری شریعت میں حرام ہے۔
*سُوال ہوا: کچھ لوگ کہتے ہیں: پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دافعُ البلا (یعنی مصیبت دُور کرنے والے) کہنا شِرْک ہے۔ سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس کے جواب میں 300 احادیث ذِکْر کر کے بتایا کہ اَلحمدُ لِلّٰہ! ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی عطا سے دافِعِ رنج و بلا ہیں۔
*سُوال ہوا: بعض لوگ کہتے ہیں: رسولِ اکرم، نُورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر تمام نبیوں سے افضل ہیں تو اس پر قراٰن و حدیث سے دلیل لاؤ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس سُوال کا ایمان افروز جواب لکھا اور 100 احادیث سے ثابت کیا کہ اللہ پاک کے فضل سے ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمتمام نبیوں کے سردار ہیں۔
*فرشتوں کی پیدائش کیسے ہوتی ہے؟ اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے 24 احادیث ذِکْر فرمائیں۔
*ہمارے آقا و مولیٰ، محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم روزِ قیامت شفاعت فرمائیں گے، اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے 40 احادیث ذکر کیں۔
*داڑھی کی ضرورت و اہمیت پر 56 احادیث۔
*والدین کے حُقُوق کے متعلق 91 احادیث۔
اسی طرح اور بےشُمار موضوعات پر اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے سینکڑوں احادیث ذِکر فرمائیں، ان احادیث سے مسائِل اَخْذ فرمائے، ان احادیث کے مَعَانی بیان کئے، پھر یہ نہیں کہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے صِرْف حدیث بیان کر دی، بلکہ آپ جب بھی حدیثِ پاک نقل فرماتے ہیں، اس حدیثِ پاک کا حوالہ بھی لکھتے ہیں۔
قارئینِ کرام! امامِ اہلِ سنّت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت کا یہ پہلو نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، علمِ حدیث میں امامِ اہلِ سنّت کی خدمات کو ایک دو مضامین تو کیا مجلدات میں بھی سمیٹا نہیں جاسکتا۔ اللہ کریم ہمیں امامِ اہلِ سنّت کا فیضان تا حیات عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ذمہ دار شعبہ بیاناتِ دعوتِ اسلامی، المدینۃ العلمیہ فیصل آباد)
Comments