Book Name:Aqa-ka-Safre-Mairaaj

مبارکہ کو عظیمُ الشّان پانی یعنی زم زم شریف سے غسل دے کر اُس میں حکمت کو بھرا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ  کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسمِ اَطہر کو غُسْل دینے کے لئے دیگر پانیوں کے بجائےزَم زَم شریف کو ہی کیوں منتخب فرمایاگیا؟

حکیمُ الامّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہاِس کی حکمت کو بَیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حُضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ حضرت اُمِّ ہانی بنتِ ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کے گھر سو رہے تھے،مَلائکہ(فِرِشتے) یہاں سے جَگا کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کوحَطیمِ کعبہ میں لائے ،ابھی تک آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اُونگھ طاری تھی پھر یہاں غُسْل دیا ،دُنیاوی دُولہا کے جسم کو غُسْل دیا جاتا ہے،حُضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایسے انوکھےدولہا ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کو بھی غُسْل دیا گیا۔آبِ زَمْ زَم دوسرے پانیوں(Waters)سے افضل ہے کہ حضرت سَیِّدُنا اسماعیل عَلَیْہِ السَّلامُ کے قدم سے جاری ہوا ہے،اِس لئے یہ پانی اُس غُسْل کے لئے مُنْتَخَب ہوا۔اِیمان و حکمت اُنڈیل کر حُضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَکاسِینہ بھر دیا پھر اُسے سی دیا،حُضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قَلْب شریف میں اِیمان و حکمت پہلے ہی سے موجود تھا، یہ بھی(اِیمان و حکمت کی)زیادَتی فرمانے کے لئے ہوا۔(مرآۃ المناجیح،۸/۱۵۲ملخصاً)

(نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا)سینۂ پاک پہلے ہی نورانی تھا اب نُوْرٌ عَلٰی نُوْر ہوگیا،سونا جنّتی تھا،پانی زَمْ زَم،جنّتی سونے کی لگن(یعنی برتن)میں حرم کا پانی شریف،سُبْحٰنَ اللہ سونے پر سُہاگہ ہے ۔(مرآۃ المناجیح،۸/۱۳۶ملخصاً)اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:

اُتار کر اُن کے رُخ کا صَدقہ یہ نُور کا بٹ رہا تَھا باڑا                     کہ چاند سُورج مَچَل مَچَل کر جَبِیں کی خَیرات مانگتے تھے

وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جو بن ٹپک رہا ہے                     نَہانے میں جو گِرا تھا پانی کَٹورے تاروں نے بَھر لیے تھے