Book Name:Har Simt Chaya Noor Hay
عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم َکی ذاتِ بابرکات ہے۔(ماہنامہ فیضانِ مدینہ، دسمبر۲۰۱۷،ص۸)
جبکہ پارہ 22، سورۃ الاحزاب آیت 45اور46میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ ۲۲،الاحزاب:۴۵-۴۶)
تَرْجَمَۂ کنز الایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی)بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اوراللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب
حکیم الامت، مفتی احمدیار خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: قرآن شریف نے سورج کو بھی دوسری جگہ سراجِ منیر فرمایا ہے کیونکہ وہ چمکتا بھی ہے اور چمکاتا بھی ہے۔ یہی سورج چاند تاروں کو نور بناتا ہے، کیونکہ یہ سب سورج سے ہی نور پاتے ہیں اور جگمگاتے ہیں۔ اسی طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی سراجِ منیر فرمایا کہ حضور خود بھی چمک رہے ہیں اور صحابَۂ کرام اور اولیاء اللہ کو نور بنا رہے ہیں کہ وہ سب حضور ہی سے جگمگا رہے ہیں۔(رسالَۂ نور مع رسائلِ نعیمیہ، ص۱۲)
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے مِرا دل بھی چمکا دے چمکانےو الے
تُو زندہ ہے وَاللہ تُو زندہ ہے وَاللہ مرے چشمِ عالم سے چھپ جانےوالے
(حدائقِ بخشش، ص۱۵۸)
مختصر وضاحت:پہلے شعر کا مطلب ہے کہ جہاں میں جو بھی چمک رہاہے،اے نوری چمک والےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ! وہ آپ کے نور کے صدقے میں ہی چمک رہاہے ،تومیرے نورانی آقا !میرا دل جو گناہوں کی وجہ سے سیاہ ہوچکا ہے،اس پر بھی نظرِ منور ڈال کر چمک عطا فرما دیجئے۔ دوسرے شعر کا مطلب ہے کہ اے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ !اللہ کی قسم !آپ زندہ ہیں،اللہ