Book Name:Khof-e-Khuda Hasil Karnay Kay Tariqay

سے تفصیلی گفتگو ہو سکتی ہے ، پُوری پُوری کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ، البتہ مختصر طَور پر یُوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک مثالی معاشرے کی 2 اہم بنیادیں ہیں : (1) : اُس  مُعَاشرے کے افراد ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کرتے ہوں ، کوئی بھی دُوسروں پر ظُلْم نہ کرتا ہو (2) : اور اُس مُعَاشَرے کا ہر فرد دوسروں کے ساتھ خیرخواہی کا ، دوسروں کی بھلائی کا جذبہ رکھنے والا ہو۔

یہ دونوں باتیں جس معاشرے میں پائی جائیں ، وہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بھی ہو گا اور اس معاشرے میں جرائِم بھی بالکل نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ اور یہ (حق تلفی کا نہ ہونا ، خیر خواہی کا جذبہ ہونا) دونوں باتیں  خوفِ خُدا کے ذریعے حاصِل کی جا سکتی ہیں ، یعنی اگر ہمارے دِلوں میں خوفِ خُدا پیدا ہو جائے تو اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! اس کی برکت سے حق تلفیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور خیر خواہی کا جذبہ بھی پیدا ہو جائے گا۔ آئیے! اس بات کو 2وَاقعات کی  روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :

 خوفِ خُدا کے سبب غَش کھا کر گِر پڑے

حضرت مِسْعَر بن کِدَام رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ سے روایت ہے ، ایک روز ہم امامِ اعظم امام ابوحنیفہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ کہیں سے گزر رہے تھے ،  بےخیالی میں امامِ اعظم رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مبارک پاؤں ایک لڑکے کے پیر پَر پڑگیا ، لڑکے کی چیخ نکل گئی اور اُس کے منہ سے   بے ساختہ نکلا : یَا شَیْخُ اَلَا تَخَافُ الْقِصَاصَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یعنی جناب! کیا آپ روزِ قیامت لئے جانے والے انتقامِ خُداوندی سے نہیں ڈرتے؟ بَس اس لڑکے کی یہ بات سننی تھی کہ امامِ اعظم رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور آپ غَش کھا کر زمین پر تشریف لے آئے۔ ([1])


 

 



[1]...اشکوں کی برسات ، صفحہ : 17۔