Book Name:Dar Sunana Sunnat e Anbiya Hai

ڈرانے والے تَو اچھے ہیں

پیارے اسلامی بھائیو! ڈرانا 2قسم کا ہوتا ہے: (1):ایک ہوتا ہے کہ خطرہ مَوْجُود نہیں ہے، بندہ پِھر بھی ڈراتا جا رہا ہے، مثلاً ہم کسی راستے پر جا رہے ہیں، راستہ بالکل صاف ہے، آدمی خوامخواہ کہے جا رہا ہے: آگے نہ جانا۔ آگے ڈاکو ہیں، سنبھل کر چلنا، آگے کنواں ہے۔ یہ ڈرانا تو یقیناً بُرا ہے۔ جو یُوں ڈراتا ہے، بُرا کرتا ہے (2):دوسری قسم کا ڈرانا یہ ہوتا ہے کہ سامنے خطرہ موجود ہے، اب آدمی ڈرائے تَو ایسا ڈرانے والا جو ہوتا ہے، وہ ہمارا خیر خواہ ہوتا ہے، آپ دیکھیے! ڈاکٹر صاحب بھی تَو ڈراتے ہیں نا؟ کہ بھئی...!! فُلاں فُلاں چیزیں مت کھانا، ورنہ کینسر ہو جائے گا۔ فُلاں چیز نہ کھانا، ورنہ ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جائےگا۔ ایسا جو ڈاکٹر ہو، جو ہماری حالت دیکھ کر پیشگی اِطلاع دیدے، ایسے ڈاکٹر کو ہم بُرا سمجھتے ہیں کہ اچھا سمجھتے ہیں؟ یقیناً اچھا ہی سمجھیں گے کیونکہ اس نے پہلے ہی ہمیں خطرے سے آگاہ کردیا ہے۔

یُونہی *اَنبیائے کرام علیہم السَّلام نے لوگوں کو ڈرایا *رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  نے لوگوں کو ڈرایا *صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے ڈرایا *اَوْلیائے کرام نے ڈرایا*عُلَمائے کرام نے ڈرایا تو یہ ڈرانا خوامخواہ کا نہیں ہے، قبر کا گڑھا ہمارے سامنے موجود ہے *قیامت آنے والی ہے *قیامت کا مَنْظَر بہت ہولناک ہونا ہے، ضرور ہونا ہے *جہنّم سخت خطرناک ہے اور واقعی ہے۔ لہٰذا جو ہمیں قبر میں اُترنے سے پہلے قبر کے حالات بتا رہے ہیں *قیامت تک پہنچنے سے پہلے وہاں کے اَحْوال بتا رہے ہیں، وہ تو اچھا کرتے ہیں کہ قبر میں اُترنے سے پہلے ہی سب خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں۔

لہٰذا جو ہمیں ڈر سُنائے، کبھی خوفِ خُدا بیان کر رہا ہو *کبھی جہنّم کا ذِکْر چھیڑ رہا ہو