Book Name:Dar Sunana Sunnat e Anbiya Hai

عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے ہمیں فرمائی کہ لَا ‌تَنْسَوُا‌الْعَظِيمَتَيْنِ الجنّۃَ و النَّارَ 2عظیم چیزوں کو کبھی مت بُھولو...!! (1):جنّت (2):جہنّم۔

مَعْلُوم ہوا؛ ایک مسلمان کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ جنّت اور دوزخ کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتا ہے *وہ گھر میں ہو، تب بھی جنّت و دوزخ اُس کے تصَوُّر میں ہوتی ہیں *وہ آفس میں ہو،جنّت و دوزخ تب بھی اُس کے تصَوُّر میں ہوتی ہیں *وہ بازار میں ہو، تب بھی جنّت و دوزخ کو خیال میں رکھتا ہے *سَفَر پر ہو، تب بھی یاد رکھتا ہے *غرض؛ کامِل اِیْمان والا وہ ہے جو جنّت و دوزخ کو ہمیشہ اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا ہے، ان دونوں کو کبھی بھی بُھولتا نہیں ہے۔

جس کا دِل نُورِ اِیمان سے چمک جائے

حضرت حارثہ  رَضِیَ اللہُ عنہ  صحابئ رسول ہیں، ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوئے، مَحْبوبِ ذیشان، مکی مَدَنی سُلطان  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  نے پُوچھا: کَیْفَ اَصْبَحْتَ یَاحَارِثَہ؟ اے حارثَہ! تمہاری صُبح کس حال میں ہوئی؟ عرض کیا: اَصْبَحْتُ مُؤْمِناً حَقًّا یعنی یارسولَ اللہ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! میں نے اِس حال میں صُبح کی کہ میں اللہ پاک پر سچّا اِیْمان رکھنے والا تھا۔ فرمایا: اِس کی دلیل کیا ہے کہ تم سچّے اِیْمان والے ہو؟

اب حضرت حارثہ  رَضِیَ اللہُ عنہ  نے اپنی قلبی کیفیات عرض کیں، اسی میں یہ بھی عرض کیا: یارسولَ اللہ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! میری حالت یُوں ہے کہ گویا میں جنّت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، اَہْلِ جنّت ایک دوسرے کے ساتھ مُلاقات کر رہے ہیں، یُونہی میں گویا جہنّم کو بھی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ انہوں نے چیخ پُکار مچا رکھی ہے۔