Book Name:Dar Sunana Sunnat e Anbiya Hai

اس سے پتا چلا؛ جو لوگ ہمیں ڈر سُناتے ہیں*کبھی قیامت کا تذکِرے شروع کر دیتے ہیں*کبھی جہنّم کی باتیں کرنے لگتے ہیں*کبھی قبر کی ہولناکیاں بتاتے ہیں*کبھی مَوْت کی سختیاں بتا رہے ہوتے ہیں، یہ لوگ اَصْل میں ہمیں ترقی، کامیابی، بلندی اور قُرْبِ اِلٰہی کا حقدار بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

محبّت میں اپنی گُما یاالٰہی!                  نہ پاؤں میں اپنا پتا یاالٰہی!

مِرے اَشک بہتے رہیں کاش ہر دم       ترے خوف سے یاخدا یاالٰہی!

ترے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ   میں          تھرتھر        رہوں         کانپتا        یاالٰہی!([1])

ہمارے آقا نَذِیْر ہیں

پیارے اسلامی بھائیو! قرآنِ کریم کیوں آیا؟ تاکہ لوگوں کو ڈرایا جائے۔ اب سنیے! ہمارے آقا ومولیٰ، مکی مَدَنی مصطفےٰ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  کیوں تشریف لائے؟ اللہ پاک نے فرمایا:

لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ ﰳاۙ (۱)(پارہ:18، سورۂ فرقان:1)

تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان:تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سُنانے والا ہو۔

مَعْلُوم ہوا؛ ہمارے مَحْبوب  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  نَذِیْر بن کر تشریف لائے، آپ کا ایک نامِ پاک ہی نَذِیْر ہے۔ اِس کا معنیٰ ہوتا ہے: ڈَرْ سُنانے والا۔ پتا چلا؛ مَحْبوب  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  ڈَرْ سُنانے والے نبی ہیں۔

لوگو! جہنّم سے ڈرو...!!

حضرت عدِی بن حاتِم  رَضِیَ اللہُ عنہ  سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ایک روز مَحْبوبِ


 

 



[1]...وسائلِ بخشش، صفحہ:105 ملتقطاً۔