خوشبوئے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! مرحبا مرحبا !
از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ
اللہ پاک کے پیارے اور آخِری نبی ، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جیسے حُسن و جمال میں بے مثال تھے ایسے ہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خوشبو بھی باکمال تھی ، خادِمُ النَّبی حضرتِ سیّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”حُضور پُرنُور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارَک بدن کی خوشبو سے بڑھ کر میں نے کسی عَنبر ، کستوری اور کسی چیز کو خوشبودار نہ پایا۔“ ( مسلم ، ص978 ، حدیث : 6053 ) حضرت سیّدنا جابِر بن سَمُرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے رُخساروں پر ہاتھ پھیرا ، میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک ہاتھوں سے ایسی ٹھنڈک اور خوشبو پائی کہ گویا ابھی ابھی آپ نے عِطْر بیچنے والے کے صندوق ( Box ) سے اپنے ہاتھ کو باہَر نکالا ہے۔“ ( مسلم ، ص978 ، حدیث : 6052 )
رسولِ کریم ، رء وفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسمِ پاک سے ایسی بھینی بھینی خوشبو ( Light fragrance ) آتی تھی کہ آپ کا جس گلی ، بازار سے گزر ہوتا ، لوگ جان لیتے کہ ابھی ابھی یہاں سے اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گزرے ہیں جیسا کہ حضرت سیّدنا جابِر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ”رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس راستے سے گزرتے پھر کوئی شخص اُس طرف سے گزرتا تو وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پسینے کی خوشبو سے پہچان لیتا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہاں سے گزرے ہیں۔“
( التاریخ الکبیر للبخاری ، 1 / 372 ، رقم : 1273 )
اعلیٰ حضرت ، امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کتنے پیارے انداز سے بارگاہِ رسالت میں عرض کررہے ہیں :
عَنبر زمیں عَبِیر ہوا مُشک تَر غُبار ! ادنیٰ سی یہ شناخْتْ تِری رہ گزر کی ہے
( حدائقِ بخشش ، ص225 )
”عَنبر“ بہت قیمتی خوشبو ہے اور یہ ایک مچھلی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ”عَبِیر“ بھی ایک مشہور خوشبودار پاؤڈر ہے جو چند خوشبوؤں اور صَندل وغیرہ سے ملا کر تیار کیا جاتا ہے اور کپڑوں پر چِھڑکا جاتا ہے ، جیسے آج کل باڈی اسپرے آتے ہیں۔ ”مُشک“ بھی ایک خاص خوشبو ہے جو کہ مخصوص ہِرَن کی ناف ( Navel ) سے حاصل ہوتا اور بہت قیمتی ہوتا ہے۔ امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ کے شعر کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر کسی جگہ سے گزریں ، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گزرنے کی ایک چھوٹی سی نشانی یہ ہے کہ وہ زمین اور وہاں کی ہوا ، بہترین خوشبو ”مُشک ، عَنبر وعَبیر“ سے بھی زیادہ خوشبو دار ہوجاتی ہے۔
گزر تیرا ہوا ہے جو گلی سے تری خوشبو سے ہر ذَرَّہ بسا ہے
( سامان بخشش ، ص216 )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہ علٰی مُحمَّد
( نوٹ : یہ مضمون 6ربیعُ الاوّل1442ھ کو عشا کی نماز کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے ( Ep : 1785 ) کی مدد سے تیار کرنے کے بعد امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے نوک پلک درست کروا کے پیش کیا گیا ہے۔ )
Comments