رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازدواجی زندگی

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِزدواجی زندگی

 صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم The marital life of rasoolullah

*مولانا سید بہرام حسین شاہ عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء


شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کیسا سلوک کرے اِس حوالے سے اللہ پاک کے آخری نبی ، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی ” بحیثیت شوہر “ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ ایک بہترین اور عظیم شوہر کے لئے جن خصوصیات کا تصور کیا جاسکتا ہے وہ ساری کی ساری خصوصیات ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ والا صفات میں کامل طور پر موجود تھیں۔ آئیے بحیثیت ایک عظیم اور بہترین شوہر کے آپ کی اِزدواجی زندگی کے چند پہلو ملاحظہ کیجئے۔

رہائش گاہوں کی تعمیر : ایک شوہر پر بیوی کے حقوق میں سے بنیادی حق یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے رہنے سہنے ، کھانے پینے اور پہننے کا مناسب اِہتمام کرے۔ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب مدینۂ منورہ تشریف لائے تو مسجدِ نبوی کے ساتھ ہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اَزواجِ مطہرات کے لئے مکان بنوائے۔اُس وقت تک حضرت بی بی سَودہ اور حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہما نکاح میں تھیں اِس لئے دو ہی مکان بنوائے۔ جب دوسری اَزواجِ مطہرات آتی گئیں تو دوسرے مکانات بنتے گئے۔ [1]

اخراجات کا اِہتمام : ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم توکُّل کے اعلیٰ ترین مَرتبے پر فائز تھے ، آپ اپنی ذات کے لئے کچھ بچا کر رکھنا پسند نہ فرماتے تھے مگر اپنے اہل و عیال کے مُعاملے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا طرزِ عمل یہ تھا کہ آپ ان کے لئے سال بھر کا غلہ جمع فرما دیتے تھے جیسا کہ امیرُ المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : بنو نَضِیر کے اَموال اُن اَموال میں سے تھے جو اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر لوٹا دئیے تھے ، مسلمانوں نے انہیں حاصل کرنے کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے تھے نہ اونٹ ، یہ اَموال خاص طور پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تصرف میں تھے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان اَموال سے ایک سال کا خرچ نکال لیتے اور جو مال باقی بچتا اسے جہاد کی سواریوں اور ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرتے تھے۔[2]اپنی بیوی پر خرچ کرنا اور اسے کھلانا پلانا جہاں شوہر کی ذِمَّہ داری ہے وہاں شوہر کو اِس پر اَجر و ثواب بھی ملتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے : تم اللہ پاک کی رضا کے لئے جو بھی خرچ کرو گے اس پر اَجر پاؤگے ، یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے اُس میں بھی اَجر ہے۔[3]کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس میں بھی اَجر ہے۔ [4]اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے والے دینار کو حدیثِ پاک میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے ، غلام کو آزادی دلانے کےلئے خرچ کرنے اور مسکین پر خرچ کرنے سے زیادہ اجر و ثواب والا فرمایا گیا ہے۔[5]

محبت و اُلفت : اِسلام سے قبل عورت کو ہمیشہ نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھاجاتا تھا ، اِس کی کوئی قدر و اَہمیت نہ تھی ، اِسلام نے عورت کو اس کا حقیقی مقام دے کر عزت و عظمت سے نوازا اور اِس کی قدر و منزلت میں اِضافہ کرتے ہوئے اسے بہترین متاع قرار دیا ہے چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے : دُنیا متاع  ( یعنی قابلِ اِستفادہ چیز )  ہے اور دُنیا کی بہترین متاع نیک عورت  ( بیوی ) ہے۔[6]آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی اَزواجِ پاک سے محبت فرماتے اور اِس کا اِظہار بھی فرماتے چنانچہ حضرت خدیجہ   رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا : مجھے اِن کی محبت عطا فرمائی گئی ہے۔[7]آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنی اَزواج سے محبت واُلفت کا یہ عالَم تھا کہ ان کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے اور کسی بھی حال میں انہیں اِحساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دیتے تھے اِس بات کا اَندازہ اِن اَحادیثِ مبارکہ سے کیجئے کہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مخصوص ایام میں ، میں پانی پیتی پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دے دیتی تو جس جگہ میرا منہ لگا تھا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہیں دَہن مبارک رکھ کر پیتے اور مخصوص ایّام میں ہڈّی سے گوشت نوچ کر کھاتی پھر آپ کو دے دیتی تو آپ اپنا دَہن مبارک اُس جگہ رکھتے جہاں میرا منہ لگا تھا۔[8]

بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کیجئے : زمانۂ جاہلیت میں بیویوں پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اسے سُن کر ہی کلیجا منہ کو آتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے مُعاشرے کی حالت بھی اس سے کچھ کم نظر نہیں آتی۔ بیوی کو تنگ کرنا ، جبری طور پر مہر مُعاف کروانا ، اس کے حقوق ادا نہ کرنا ، ذہنی اَذیتیں دینا ، ناراض ہو کر عورت کو اس کے ماں باپ کے گھر بٹھا دینا ، اپنے گھر میں رکھ کر بات چیت بند کر دینا ، دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کرنا ، مارنا پیٹنا بلکہ قتل تک کر دینا ، اَلغرض ظلم و سِتم کی وہ کون سی صورت ہے جو ہمارے مُعاشرے میں نہیں پائی جاتی البتہ جو اسلامی تعلیمات پر صحیح طور عمل کرتے ہیں وہ ان نازیبا سرگرمیوں سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ اِسلام نے اِس سوچ کی حوصلہ شکنی کی اور بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ ہمارا ربِّ کریم ارشاد فرماتاہے : وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ ترجمۂ کنزالایمان : اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔[9] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی اَزواجِ مُطہَّرات  رضی اللہ عنہن کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ کرتے چنانچہ فرماتے ہیں : خَيْـرُكُمْ خَيْـرُكُمْ لِاَهْلِهٖ وَاَنَاخَيْـرُكُمْ لِاَهْلِىْتم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔[10]

حقوق کی ادائیگی کا تقرر : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنی اَزواجِ مطہرات کے ساتھ حُسنِ سلوک اور اچھائی کا یہ عالَم تھا کہ سب کی طرف یکساں توجہ فرماتے اور ان سب کو برابر وقت دیتے ، چنانچہ حضرت عائشہ صِدِّیقہ  رضی اللہ عنہا سے رِوایت ہے کہ رَسُولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی اَزواج کے دَرمیان باری مقرر فرماتے ہوئے اِنصاف فرماتے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے الٰہی ! یہ میری تقسیم ہے اُس میں جس کا میں مالک ہوں پس تو مجھے اُس میں عتاب نہ فرمانا جس کا تو مالک ہے اور میں مالک نہیں۔[11]

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نو ازواج مطہرات تھیں ، آپ جب ان میں ایام کی تقسیم فرماتے تو پہلی بیوی کے پاس نو دن کے بعد پہنچتے تھے ، اس لئے ہر رات تمام ازواج مطہرات اس زوجہ کے ہاں اکٹھی ہوجاتی تھیں جہاں آپ قیام فرماہوتے تھے۔[12]

قرعہ اندازی : ” آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب سفر کا اِرادہ فرماتے تو اَزواج کے دَرمیان قرعہ ڈالتے تھے پھر ان میں سے جس کا نام نکل آتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ “[13] حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اِس طرح  ( قرعہ ڈالتے )  کہ ہر بی بی کا نام کاغذ کی پرچیوں پر لکھ کر ان کی گولیاں بنا کر کسی بچے کے ذَریعہ ایک گولی اُٹھواتے ، اس میں جس کا نام نکل آتا ، اس کو سفر میں لے جاتے ، قرعہ ڈالنے کی اور بھی کئی صورتیں ہیں ، مگر یہ زیادہ مُروَّج ہے۔[14]

گھریلو کام میں ہاتھ بٹانا : ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شہنشاہِ کون و مکاں ہیں ، اگر آپ چاہتے تو اِنتہائی شاہانہ اَنداز میں زندگی گزار سکتے تھے اور اپنی اَزواجِ مُطَہَّرات کو بھی دُنیا کی تما م راحتیں اور آسائشیں فراہم کر سکتے تھے ، لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِنتہائی سادگی اور عاجزی کے ساتھ زندگی بسر فرمائی۔ آپ کی عاجزی کا یہ عالَم تھا کہ گھریلو کام کاج میں اپنی اَزواج کے ساتھ ہاتھ بٹاتے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدّیقہ  رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ رَسُولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر میں کیا کام کرتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا : رَسُولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے پھر جب نماز کا وقت آجاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔[15]

سیرتِ مبارکہ کے اِس پہلو سے معلوم ہوا کہ شوہر گھریلو کام کاج میں اپنی بیوی کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس کا ہاتھ بٹائے تو یہ کوئی بُری چیز نہیں اور نہ ہی عیب والی بات ہے بلکہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ثابت ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے مُعاشرے میں اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اگر کوئی مَرد گھر کے کام کاج میں بیوی کی دِلجوئی کرتے ہوئے اس کا ہاتھ بٹائے تو اسے ” زَن مُرید ، جورو کا غلام “ اور نہ جانے کیا کیا نام دیئے جاتے ہیں۔بعض لوگوں کا تو مزاج ہی بیوی پر حکم چلانے کا ہوتا ہے۔وہ خود اُٹھ کر پانی بھی نہیں پیتے حالانکہ پانی پینے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے ، بیوی کو بھی اللہ پاک کی مخلوق سمجھ کر اس پر رحم کرنا چاہئے اور کبھی کبھی آرڈر دینے کے بجائے اسے بھی پانی پلا دینا چاہئے۔ حضرت ِ سَیِّدُنا عِرباض بن سارِیہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رَسُولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا : ’’جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلاتاہے تو اسے اس کااَجر دیا جاتاہے۔‘‘تو میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور اسے پانی پلایا اور جو کچھ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا تھا ، اسے بھی سنایا۔[16]بہرحال لوگوں کی باتوں پر توجہ دینے کے بجائے اللہ پاک کی رضا پانے اور ثواب کمانے کی نیت سے گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹانے سے نہ صرف بیوی کے دِل میں محبت بڑھے گی بلکہ گھر بھی اَمن کا گہوارہ بن جائے گا۔

خوش طبعی : ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس طرح اپنے صحابَۂ کرام  رضی اللہ عنہم کے ساتھ خوش طبعی فرماتے اور مسکراتے تھے ایسے ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی پیش آتے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزاح میں حق بات کے سِوا کچھ نہ ہوتا۔ [17]حضرت سیِّدُنا اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں میں سب سے بڑھ کر اپنی اَزواج کے ساتھ خوش طبع تھے۔[18]

پَردے کا حکم : اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مُقَدَّس زمانہ نہایت ہی خیر و برکت والا زمانہ تھا اور اَزواجِ مُطَہَّرات یقیناً اُمَّت کی مائیں ہیں کوئی بھی شخص اِن کے بارے میں اپنے دِل میں بُرا خیال لانے کا تَصَوُّر بھی نہیں کر سکتا ، اِس کے باوجود آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اَزواجِ مطہرات کو پَردہ کرنے کی تاکید فرماتے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ  رضی اللہ عنہا سے رِوایت ہے کہ وہ اور اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ  رضی اللہ عنہا رَسُولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس حاضر تھیں ، اِسی دَوران حضرت عبدُ اللہ بن اُمِّ مکتوم رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے ، چونکہ اُس وقت پَردے کا حکم نازل ہو چکا تھا چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : تم دونوں اِن سے پَردہ کر لو۔ حضرت اُمِّ سلمہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی : یارسولَ اللہ ! یہ تو نابینا ہیں ، نہ تو ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پہچان سکتے ہیں۔ رَسُولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا تم دونوں بھی نابینا ہو ؟ کیا تم دونوں انہیں دیکھ نہیں رہی ہو ؟ [19]

اَزواج کو سلام کرنا : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عادتِ کریمہ تھی کہ جس طرح آپ گھر سے باہر بچوں بڑوں سبھی کو سلام کرتے اور سلام کرنے میں پہل فرماتے اِسی طرح جب آپ گھر میں تشریف لاتے تو اپنی اَزواج کو سلام فرماتے ، ان کے لئے دُعائے خیر فرماتے اور ان کی مزاج پُرسی بھی فرماتے۔[20]

سیرتِ مبارکہ کے اِس پہلو سے معلوم ہوا کہ آدمی جب اپنے گھر میں داخل ہو تو بیوی کو سلام کرے۔ افسوس ! آج کل میاں بیوی کے آپس میں اتنے گہرے تعلقات ہوتے ہوئے بھی سلام جیسے عمدہ اخلاق سے محرومی دیکھنے کو ملتی ہے ، حالانکہ سلام جس کو کیا جاتا ہے اس کے لئے سلامتی کی دُعا ہے ، اِس سے روزی میں برکت ہوتی ہے اور گھر میں لڑائی جھگڑا بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : گھر میں داخل ہوتے وقت بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر پہلے سیدھا قدم دَروازہ میں داخل کریں ، پھر گھر والوں کو سلام کرتے ہوئے گھر کے اندر آئیں۔ اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو اَلسَّلامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکاتُہ ٗ کہیں۔ بعض بزرگوں کو دیکھا گیا ہے کہ دِن کی اِبتدا میں جب پہلی بار گھر میں داخِل ہو تے ہیں تو بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اور قُلْ ھُوَ اللہ شریف پڑھ لیتے ہیں کہ اِس سے گھر میں اِتفاق بھی رَہتا ہے اور روزی میں بَرَکت بھی۔[21]

عبادت کیلئے جگانا : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اَزواجِ مطہرات کی آخرت کی مزید بہتری کیلئے انہیں عبادات کا ذوق و شوق دِلاتے اور انہیں راتوں کو عبادت کے لئے جگاتے۔ حضرت اُمِّ سلمہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیدار ہوئے تو فرمایا : سبحٰن اللہ یعنی اللہ کی ذات پاک ہے ! اس رات میں کیسے کیسے فتنے اتارے گئے اور کیسے کیسے خزانے کھولے گئے ! حجرے والیوں کو جگاؤ۔[22]جب رَمَضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عبادت میں بہت کوشش فرماتے ، راتوں کو جاگتے اور اپنے گھر والوں کو جگاتے۔[23]

مشاورت : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند اور صائبُ الرائے ہونے کے باوجود اپنی اَزواج کی رائے اور مشورے کو اَہمیت دیتے اور اسے قبول بھی فرماتے تھے۔ پہلی مرتبہ وحیِ اِلٰہی نازل ہونے کے موقع پر بھی آپ نے اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجہ  رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔[24]صلحِ حدیبیہ کے موقع پر اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ  رضی اللہ عنہا کی مُعامَلہ فہمی ، حکمتِ عملی اور بہترین مشورے نے اِصلاح کا بڑا کام کیا کہ اُس وقت صحابَۂ کرام  رضی اللہ عنہم عمرہ کی اَدائیگی سے روکے جانے پر رنج و غم میں تھے اور کوئی بھی قربانی کرکے اپنا اِحرام کھولنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا تو آپ نے بارگاہِ رسالت میں یہ رائے دی کہ یارسولَ اللہ ! آپ کسی سے کچھ بھی نہ فرمائیں اور خود اپنی قربانی ذبح کر کے اور حلق کرواکر اپنا اِحرام کھول دیں ، چنانچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسا ہی کیا یہ دیکھ کر سب صحابَۂ کرام  رضی اللہ عنہم نے بھی اپنی اپنی قربانیاں کر کے اور ایک دوسرے کا حلق کرکے اِحرام کھول دیا۔[25]

 ”  گھریلو زندگی “ اِنسانی زندگی کا وہ نمایاں پہلو ہے جس کے ذَریعے ایک اِنسان کی عملی اور اَخلاقی حالت کا صحیح اَندازہ لگایا جاسکتا ہے ، شاید ہی کوئی شخص اِس پہلو کے اِعتبار سے کامل ہو ، یہی وجہ ہے کہ عام لوگ اپنی زندگی کے اِس پہلو کو راز میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی دوسرے کا اِس پر مُطَّلِع ہونا پسند نہیں کرتے۔ صرف نبیِ آخر الزماں ، شہنشاہِ کون و مکاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مبارک ہے کہ جن کی زندگی کا یہ پہلو بھی سب پر آشکار ، بےمثل و بے مثال اور لائقِ تقلید ہے۔ اللہ پاک نبی ِّرَحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت کے صدقے ہمیں بھی اپنےاہل وعیال اور بالخصوص اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنّت ، المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ ، 2 / 185 ملتقطاً-سیرت مصطفیٰ ، ص182

[2] مسلم ، ص 747 ، حدیث : 4575

[3] بخاری ، 1 / 439 ، حدیث : 1295

[4] مسند احمد ، 6 / 85 ، حدیث : 17195

[5] مسلم ، ص 388 ، حدیث : 2311

[6] نسائی ، ص 527 ، حدیث : 3229

[7] مسلم ، ص 1016 ، حدیث : 6278

[8] مسلم ، ص138 ، حدیث : 692

[9] پ4 ، النسآء : 19

[10] ابن ماجہ ، 2 / 478 ، حدیث : 1977

[11] ترمذی ، 2 / 374 ، حدیث : 1143

[12] مسلم ، ص 592 ، حدیث : 3628

[13] بخاری ، 2 / 173 ، حدیث : 2593

[14] مراٰۃ المناجیح ، 5 / 82

[15] بخاری ، 1 / 241 ، حدیث : 676

[16] مجمع الزوائد ، 3 / 300 ، حدیث : 4659

[17] ترمذی ، 3 / 399 ، حدیث : 1997

[18] فیض القدیر ، 5 / 229 ، تحت الحدیث : 6865

[19] ترمذی ، 4 / 356 ، حدیث : 2787

[20] مسلم ، ص 571 ، حدیث : 3500 ، ص 572 ، حدیث : 3502 ماخوذاً

[21] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 9ملخصاً

[22] بخاری ، 1 / 61 ، حدیث : 115

[23] بخاری ، 1 / 663 ، حدیث : 2024

[24] بخاری ، 1 / 8 ، حدیث : 3 ماخوذاً

[25] بخاری ، 2 / 227 ، حدیث : 2732


Share

Articles

Comments


Security Code