عید میلاد النبی  کے موقع پر ایصالِ ثواب  مع دیگر سوالات

مدنی مذاکرے کے سوال جواب

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر2023ء

 ( 1 ) میرے بعد کوئی نبی نہیں

سُوال : کیا پىارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اپنے آخرى نبى ہونے کے بارے مىں اِرشاد فرماىا ہے؟

جواب : جی ہاں ! بالکل اِرشاد فرمایا ہے ، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے : اَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِیَّ بَعْدِي یعنی میں آخری نبی ہوں ، مىرے بعد کوئى نبى نہىں ہے۔ ( ترمذی ، 4 / 93 ، حدیث : 2226 )  یاد رہے ! پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی ماننا ”ضرورىاتِ دىن“ مىں سے ہے ،  ( الاشباہ والنظائر ، ص161 )  لہٰذا اگر کوئی شخص سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں یا بعد میں  کسی کو نبى مانے ىا کسی نئے نبی کے آنے کو ممکن مانے  وہ کافر ہوجائے گا ! ایسے شخص  کا اسلام سے کوئى واسطہ نہىں اگرچہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے اور اپنا اسلامى نام رکھے جىسے ہمارے دور مىں ایک مشہور طبقہ ہے جسے ”قادىانى“ کہتے ہیں ، ىہ کھلے کافر بلکہ مُرتَد ہىں ، یہ لوگ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخرى نبى ماننے کے بجائے مرزا غلام احمد قادىانى کو نبى مانتے ہىں ، ىہ مسلمان نہىں اگرچہ مسجدىں بنائیں ، اپنى عبادت گاہ کا نام مسجد اور اپنا نام مسلمانوں والا رکھیں۔ ایسے لوگ جب تک  توبہ کرکے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخرى نبى تسلىم نہیں کریں گے اور اىمان نہىں لائیں گے اس وقت تک کافر ہى رہیں گے ، نیز اگر وہ اسی حال میں مرے تو ہمىشہ ہمىشہ کے لئے جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ ( قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے مگر آپ نئے نبی نہیں ہیں اور آپ انجیلِ مقدس کی نہیں قراٰنِ کریم کی تعلیم دیں گے۔ )

 ( مدنی مذاکرہ ، بعد نمازِ تراویح ، 21رمضان شریف 1441ھ )

 ( 2 ) اِیصالِ ثواب کے لئے گوشت بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے

سوال : ہم نے عِیدِ میلادُ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سلسلے میں بکرا ذَبْح کرنے کی نیّت کی تھی ، لیکن اب اُس کی ترکیب نہیں بن پارہی ، کیا اُس کی جگہ ہم مُرغی یابڑے کا گوشت چاول میں ڈال سکتے ہیں ؟

جواب : اگر پورا بکرا ذَبْح کرنے کا ذِہن تھا اور ترکیب نہیں بن پارہی تو مِقدار کم کرکے بکرے کے گوشت ہی کی ترکیب بنالیں ، پُوری دیگ کے بجائے پتیلا بنالیں ، ایسا کیا جاسکتا ہے۔ خدانخواستہ اگر نیّت بدل گئی ہو اور بکرے کے بجائے مُرغی کرنا چاہ رہا ہو تب بھی جائز ہے ، لیکن ایسا نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ جب ایک نیک کام کی نیّت کرلی تو اُسے نبھالینا چاہئے۔ پکانے کے بجائے اِیصالِ ثواب کے لئے گوشت تقسیم بھی کیا جاسکتا ہے ، یہ بھی نیاز کا ایک طریقہ ہے۔ بغیر پکائے دینے میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پکی ہوئی نیاز ہوسکتا ہے صرف مَرد کھا پائیں ، لیکن گوشت جب گھر میں جائے گا تو گھر کی خواتین بھی خوش ہوں گی اور اپنی پسند کی Dish  ( کھانا )  بناکر سب مل کر کھاسکیں گے۔ ( مدنی مذاکرہ ، 2ربیع الاول شریف 1441ھ )

 ( 3 ) قراٰنِ پاک میں اَنبیائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے نام

سُوال : قراٰنِ پاک میں کتنے اَنبیائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے نام آئے ہیں ؟

جواب : قراٰنِ کریم میں 26 اَنبیا ئے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے نام آئے ہیں۔

 ( بہار شریعت ، 1 / 48 ، 49-مدنی مذاکرہ ، 8ربیع الآخر شریف 1441ھ )

 ( 4 ) طُوفانِ نوح میں زندہ رہنے والی بُڑھیا

سُوال : جب حضرتِ سَیِّدُنا نوح علیہ السّلام کے زمانے میں طوفان آیا تھا تو کیا کشتی میں موجود افراد کے علاوہ دنیا کے تمام مسلمان اِنتِقال کر گئے تھے ؟

جواب : جی ہاں ! البتہ ایک بُڑھیا کا قصّہ ملتا ہے کہ وہ اپنی جھونپڑی کے اندر نماز میں مشغول تھیں اور کشتی میں سُوار نہ ہوئی تھیں۔ طوفان آیا اور چلا گیا ، لیکن وہ بُڑھیا زندہ سلامت رہیں۔بعد میں جب اُن سے اِس بارے میں پوچھا گیا تو کہا : مجھے تو خبر ہی نہیں کہ کب طوفان آیا اور کب چلا گیا ! میں تو اللہ پاک کی عبادت میں مشغول تھی۔  ( تفسیر روح البیان ، پ12 ، ھود ، تحت الآیۃ : 41 ،  4 / 129 ماخوذاً )  یہ ایک حکایت نقل کی گئی ہے ، حقیقتِ حال اللہ پاک جانتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ سلطنتِ عُمّان میں اُن بُڑھیا کا مزار بھی ہے۔ میری ابھی تک حاضِری نہیں ہوئی۔

 ( مدنی مذاکرہ ، 13صفرشریف 1441ھ )

 ( 5 ) کیا حکیم لقمان نبی تھے ؟

سُوال : کیا حکیم لقمان نبی تھے ؟ کیونکہ اِن کے نام سے قراٰن پاک میں سُورت موجود ہے۔

جواب : سُورت کا نام ہونا نبی ہونے کی دلیل نہیں ہے ، قراٰنِ کریم میں گائےکے نام سے ”سُورۂ بَقَرہ“ بھی موجود ہے ، اِسی طرح مکڑی کے نام سے ”سُورۂ عَنْکَبُوت“ ، یُوں ہی چیونٹی کے نام سے ”سُورۂ نَمْل“ اور شہد کی مکھی کے نام سے ”سُورۂ نَحل“ بھی موجود ہے۔ حضرتِ سَیِّدُنا لقمان رحمۃُ اللہ علیہ وَلِیُّ اللہ اور اللہ پاک کے مقبول بندے تھے۔ ( تفسیر ثعلبی ، پ21 ، لقمٰن ، تحت الآیۃ : 12 ، 7 / 312 ملخصاً )  ان کے اَقوال  ( یعنی کہی ہوئی باتیں )  بہت عُمدہ اور نصیحت سے بھرپور ہیں ، اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں ان کا ذِکر فرمایا ہے۔ ( مدنی مذاکرہ ، 8ربیع الآخر شریف 1441ھ )

 ( 6 ) قراٰنِ کریم کی تلاوت کب اور کتنی دیر کریں ؟

سُوال : قراٰنِ کریم کی تلاوت کس وقت اور کتنی دیر تک کرنی چاہئے ؟

جواب : تلاوتِ قراٰنِ کریم کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں۔ البتہ تلاوت اتنی دیر تک کرنی چاہئے جتنی دیر تلاوت میں دل لگا رہے اور نیند بھی طاری نہ ہو۔لہٰذا اگر کوئی واقعی ہمت والا ہے اور پوری رات تلاوتِ قراٰن کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو بھلے وہ پوری رات تلاوت کرے ، فرض نماز بھی پڑھے ، نیز آنکھ لگ جائے تو بیدار ہوکر نمازِ  تہجد بھی پڑھے۔  ( مدنی مذاکرہ ، بعد نمازِ عصر ، 23رمضان شریف 1441ھ )

 ( 7 ) چپل پہن کر یا بے وُضو قراٰنِ پاک پڑھنے کا شرعی حکم

سُوال : چلتے پھرتے ، چپل پہن کر یا بے وُضو قراٰ نِ پاک پڑھنا کیسا ؟

جواب : بے وُضو قراٰنِ کریم پڑھنا جائز ہے لیکن قراٰنِ کریم کو بے وُضو چُھونا جائز نہیں ہے۔ ( ردالمحتار علیٰ درالمختار ، 1 / 348 )  نیز چپل پہن کر یا سواری پر یا پیدل چلتے ہوئے قراٰنِ کریم پڑھنے میں کوئی حَرَج نہیں ہے۔

 ( مدنی مذاکرہ ، 7صفر شریف 1441ھ )


Share