رحمت مصطفےٰ بَر جُملہ انبیاء علیہم افضل الصلوات والتسلیمات والثناء

تفسیرقراٰنِ کریم

رحمتِ مصطفےٰ بَر جُملہ انبیاء علیہم افضل الصلوات والتسلیمات والثناء

*مفتی محمد قاسم عطّاری

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

 ( وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ( ۱۰۷ ) ) ترجمہ : اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔ ( پ17 ، الانبیآء : 107 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : ہمارے آقا و مولا ، احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام نبیوں ، رسولوں اور فرشتوں علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کے لیے رحمت ہیں ، جِنّوں اور انسانوں ، مومن و کافر ، حیوانات و نباتات سب کے لیے رحمت ہیں ، لفظ ”عٰلَمِیْنَ“ میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُن سب کے لیے رحمت ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عالَم ماسوائے اللہ  ( اللہ کے علاوہ سب )  کو کہتے ہیں ، جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں۔ تو لاجَرم  ( یعنی لازمی طور پر )  حضور پُر نور ، سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُن سب پر رحمت ونعمت ِربُّ الارباب ہوئے اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیض یاب۔اِسی لیے اولیائے کاملین و علمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ ازل سے ابد تک ، ارض و سماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں ، دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی ، سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔ ( فتاویٰ رضویہ ، رسالہ : تجلی الیقین ، 30 / 141 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )

اس آیت سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ساری مخلوق سے افضل ہونا بھی ثابت ہوا ، کیونکہ جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں ، تو واجب ہو اکہ وہ تمام مخلوق سے افضل ہوں۔ ( التفسیر الکبیر ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : 253 ، 2 / 521 )

حضور سید دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء کےلیے باعثِ برکت ، سببِ رحمت ، وسیلہ ِ قرب اور ذریعہ رضائے الٰہی ہیں :

حضور سید دوعالم ، محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کےلیے باعثِ برکت ، سببِ رحمت ، وسیلہ ِ قرب اور ذریعہ رضائے الٰہی ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں”میثاقِ انبیاء“ میں تمام انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کو حضور پُرنور ، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے اورآپ کی مدد کرنے کا حکم دیا  اور انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کا یہ ایمان و تائید و خدمت ونصرت یقینا ، ان سب کے لیے رحمت اور قرب و رضائے الٰہی کا عظیم سبب ہے۔قرآن مجید میں اِس میثاق کو یوں بیان فرمایا : اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا ، پھر تمہارے پاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا ، جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گا ، تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔  ( اللہ نے )  فرمایا : ( اے انبیاء ! )  کیا تم نے  ( اس حکم کا )  اقرار کرلیا اور اس  ( اقرار )  پر میرا بھاری ذمہ لے لیا ؟ سب نے عرض کی ، ”ہم نے اقرار کرلیا“  ( اللہ نے )  فرمایا ، ” تو  ( اب )  ایک دوسرے پر  ( بھی ) گواہ بن جاؤ اور میں خود  ( بھی )  تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ پھرجو کوئی اس اقرار کے بعد روگردانی کرے گا تو وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔

 ( پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 81 ، 82 )

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت آدم علیہ السّلام سے لے کر بعد تک جس نبی کو بھی بھیجا ، اس سے یہ عہد لیا کہ اگر اس کی حیات میں محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مبعوث ہوگئے تو وہ ضرور ضرور اُن پر ایمان لائیں گے اور ضرور ضرور اُن کی مدد کریں گے ، پھر وہ نبی اللہ کے حکم سے اپنی قوم سے بھی یہ عہد لیتے تھے۔ ( جامع البیان ، 6 / 555 ، ط : دار التربیۃ والتراث ، مكة المكرمة )  اِسی سے ملتی جلتی روایت حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ ما سے بھی مروی ہے اور میثاقِ انبیاء میں عہدِ الٰہی کے اس مفہوم کی تائید ذیل کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضور سید الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بیشک اگر موسیٰ علیہ السّلام تمہارے سامنے زندہ ہوتے تو میری اتباع کے بغیر ان کے لیے کوئی گنجائش نہ ہوتی۔ ( مسند احمد ، 22 / 468 ، ط : مؤسسۃ الرسالۃ )

اور ”تفسیر القرآن العظیم“ میں ہے : ہمارے آقا و مولا ، محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت تک کے لیے اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ، آپ جس زمانہ میں بھی مبعوث ہوتے ، آپ ہی سب سے بڑے امام ہوتے اور تمام انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام پر آپ کی اطاعت واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جملہ انبیاء کرام علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام مسجد اقصی میں جمع ہوئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی نے سب کی امامت فرمائی اور جب اللہ تعالیٰ میدان حشر میں اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کریں گے اور مقام محمود صرف آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کی شان کے لائق ہے۔ ( تفسیر القرآن العظیم ، 02 / 59 ، ط : دار الکتب العلمیۃ ، بیروت )

تھے وسیلے سب نبی ، تم                                           اصل ِمقصودِ ہدیٰ ہو

سب بِشارت کی اذاں تھے                             تم اذاں کا مدّعا ہو

سب تمہاری ہی خبر تھے                                       تم مؤخر مبتدا ہو

قرب ِحق کی منزلیں تھے                                         تم سفر کا منتہیٰ ہو

محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام نبیوں ، فرشتوں کے لیے بارگاہِ الٰہی میں قرب کا وسیلہ ہیں :

محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام نبیوں ، فرشتوں کے لیے بارگاہِ الٰہی میں قرب کا وسیلہ ہیں ، چنانچہ قرآن مجید میں ہے :  ( اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ )  ترجمۂ کنزالعرفان : وہ مقبول بندے جن کی یہ کافر عبادت کرتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے۔ ( پ15 ، بنی اسرآءیل : 57 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  سب سے زیادہ مقرب ہستی کو انبیاء اور فرشتے اپنے لیے وسیلہ بناتے ہیں اور بلا شک و شبہ قطعی طور پر ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی سب سے زیادہ مقرب ہیں ، لہٰذا وہی سب کے لیے سب سے بڑا وسیلہ ہیں اور رب العالمین کے قرب کا وسیلہ ہونے سے بڑھ کر رحمت کیا ہوگی ؟ اور یہ بھی دل و دماغ میں محفوظ رکھیں کہ تمام نبیوں اور جملہ خلائق کے لیے وسیلہ ہونے کا کامل ظہور میدانِ قیامت میں ہوگا ، جب تمام انبیاء علیہمُ السّلام ، مخلوقِ خدا کو آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہی طرف بھیجیں گے۔ چنانچہ جب قیامت کا دن ہوگا تو لوگ اِکَھٹّے ہوکر حضرت سَیِّدُنا آدم علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ آپ اپنے رَبِّ کریم کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے۔ وہ فرمائیں گے : میں اِس کے لیے نہیں ، لیکن تم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا دامن پکڑو ، کیونکہ وہ اللہ پاک کے خلیل  ( سچے دوست )  ہیں تو وہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کے پاس جائیں گے ، وہ بھی فرمائیں گے : میں اِس کے لئے نہیں ، لیکن تم حضرت مُوسیٰ علیہ السّلام کے پاس جاؤ ، کیونکہ وہ اللہ پاک کے کلیم ہیں تو وہ حضرت سیدنا مُوسیٰ علیہ السّلام کے پاس جائیں گے ، وہ بھی فرمائیں گے : میں اِس کے لئے نہیں لیکن تم حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی بارگاہ میں جاؤ کہ وہ روحُ اللہ اور کَلِمَۃُ اﷲ ہیں ، تو لوگ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کے پاس جائیں گے ، وہ بھی فرمائیں گے : میں اِس کے لیے نہیں ہوں ، لیکن تم حضرت سیدنا محمد مُصْطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں چلے جاؤ ، وہ میرے پاس آئیں گے تو میں فرماؤں گا ، کہ میں ہی تو شفاعت کرنے کے لیے ہوں۔ پھر میں اپنے رَبِّ کریم سے اِجازت طَلَب کروں گا ، تو مجھے اِجازت ملے گی۔ ( بخاری ، 9 / 122 ، ط : دار طوق النجاۃ ، بیروت )

سب تمہارے در کے رستے                             ایک تم راہ ِ خدا ہو

سب تمہارے آگے شافع                                           تم حضور کبریا ہو

سب کی ہے تم تک رسائی                                         بارگہ تک تم رسا ہو

قیامت میں انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام پر رحمتِ مصطفیٰ کا دوسرا اظہار :

قیامت میں جب انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام بارگاہِ خدا میں پیش ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے پیغامِ حق پہنچانے کے متعلق سوال فرمائے گا ، تو انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کے تبلیغِ حق کے سچے دعوے کی آخری تصدیق ، ہمارے آقا ، محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی سے مکمل ہوگی۔ چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے : قیامت کے دن حضرت نوح علیہ السّلام کو بلایا جائے گا۔ وہ عرض کریں گے : لَبَّيْكَ ‌وَسَعْدَيْكَ يَا رَبِّ۔ اللہ رب العزت فرمائے گا : کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ حضرت نوح علیہ السّلام عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا۔ پھر ان کی اُمّت سے پوچھا جائے گا ، کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السّلام سے فرمائے گا کہ تمہارے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے ؟ وہ کہیں گے کہ  ( حضرت ) محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کی امت میری گواہ ہے ، چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت ، حضرت نوح علیہ السّلام کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے کہ امت نے سچی گواہی دی ہے۔ یہی مراد ہے اللہ کے اس ارشاد سے   ( وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا )  ترجمہ : اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ہوں۔ ( بخاری ، 6 / 21 ، ط : دار طوق النجاۃ ، بیروت )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جملہ انبیاء علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کے لیے رحمت ہونے پر مذکورہ بالا کلی دلائل کے علاوہ جزوی دلائل بھی کثیر ہیں جن میں چند واقعات نہایت نمایاں ہیں۔ ایک تو حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ کا واقعہ کہ جب حضرت آدم علیہ السّلام سے لَغزش واقع ہوئی ، تو انہوں نے اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض کی : يَا رَبِّ اَسْاَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لما غَفَرْتَ لِيْ یعنی الٰہی ! میں تجھے  ( حضرت )  محمد  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔ ( چنانچہ پھر اسی وسیلے سے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول ہوئی ) ۔ ( کنز العمال ، 11 / 455 ، ط : مؤسسۃ الرسالۃ )

 علامہ زُرقانی رحمۃُ اللہ علیہ  ( وِصال : 1122ھ / 1710ء )  نے نقل فرمایا ہے کہ حضرت سیّدُنا نوح نَجِیُّ اللہ علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی کشتی اس مبارک نام کی بدولت جاری ہوئی۔ ( شرح الزرقانی علی المواھب ، 4 / 238 ، ط : دار الکتب العلمیۃ ، بیروت )

تیری رحمت سے صَفِیُّ اللہ کا بیڑا پار تھا

تیرے صدقے سے نَجِیُّ اللہ کا بَجْرا تِر گیا

شارحِ بخاری علامہ قَسْطَلاَّنی رحمۃُ اللہ علیہ  ( وِصال : 923ھ / 1517ء )  نے ایک بزرگ کے یہ دو شعر نقل فرمائے ہیں :

بِهٖ قَدْ اَجَابَ اللهُ آدَمَ

اِذْ دَعَا وَنُجِّى فِيْ بَطْنِ السَّفِيْنَةِ نُوْحٌ

وَمَا ضَرَّتِ النَّارُ الْخَلِيْلَ لِنُوْرِهٖ

وَمِنْ اَجْلِهٖ نَالَ الْفِدَاءَ ذَبِيْحٌ

حضور رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طفیل اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی دُعا قبول فرمائی اور حضرت نوح علیہ السّلام کو کشتی میں نجات دی گئی اور نورِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت سے آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو نقصان نہ پہنچایا اور ذَبِیحُ اللہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے بجائے جنتی مینڈھے کی قربانی کی گئی۔ ( المواھب اللدنیۃ ، 3 / 605 ، ط : المکتبۃ التوقیفیۃ ، مصر )

وہ جہنم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہوا

ہے خلیل اللہ کو حاجت رسولُ اللہ کی

دعا : اللہ تعالیٰ ہمیں نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رحمتِ کاملہ سے حصہ عطا فرمائے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رحمت والی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنّت ، فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code