نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بچوں پر شفقتیں

بچّوں کے لئے

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بچّوں پر شفقتیں

*مولانا محمد جاوید عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء

حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دریائے رحمت سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں نے بھی بہت فیض لیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچوں پر بہت شفقت فرماتے ، انہیں اپنے پاس بلاتے ، گود میں اٹھاتے ، سر پر ہاتھ پھیرتے ، دعائیں دیتے ، دینی ، دنیوی اور اخلاقی تربیت فرماتے ، سواری پر ساتھ سوار فرماتے اور والدین کو بھی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے ، اچھی تربیت کرنے اور ان کی آخرت سنوارنے کی تعلیمات دیتے۔ بچوں کی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نگاہ میں کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ اس مبارک فرمان سے لگائیے کہ ”  مسلمانوں کے بچے جنت کی چڑیاں ہیں۔ “  [1] حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ بچّوں پر مہربان تھے۔  [2]

آئیے ذیل میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بچّوں سے محبت و شفقت کی چند روایات و واقعات ملاحظہ کرتے ہیں :

بچوں کے لئے حضورِانور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعائیں اور گھٹی

صحابۂ کرام کا معمول تھا کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اسے حضور کی بارگاہ میں لاتے اور پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے برکت پانے کی تمنا کرتے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچے کے ساتھ شفقت و محبت فرماتے اور گھٹی دیتے جیسا کہ

جب مدینہ طیبہ میں حضرت بی بی اسما ء بنتِ ابو بکر  رضی اللہ عنہما کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو مسلمانوں نے خوب خوشی منائی۔ جب انہیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لایا گیا اور آپ علیہ السّلام کی گود میں دیا گیا ، کریم آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گھٹی دی ، برکت کی دعا فرمائی اور اس کانام عبد اللہ رکھا۔[3]یہی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جوان ہو کر عظیم مجاہد و سپہ سالار بنے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرا چھوٹا بھائی پیدا ہوا تو میں اسے حضور کی بارگاہ میں لایا ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہایت شفقت و محبت سے اپنی گود میں لیا ، پھر کھجور منگوائی ، اپنے مبارک منہ میں چبا کر نرم کیا ، جب خوب نرم ہو گئی تو میرے ننھے بھائی کے منہ میں رکھ دی۔ وہ اسے چوسنے لگا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا : انصار کی کھجور سے محبت دیکھو ! آپ نے اس کے چہرے پر ہاتھ مبارک پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔[4]

 ( نوٹ : حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کن کن بچوں کے نام رکھے اس کی تفصیل کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ” نام رکھنے کے احکام “ پڑھئے۔ )

نیا پھل پہلے بچوں کو دیتے

جب موسم کا نیا پھل نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس بارگاہ میں پیش کیا جاتا تو آپ  علیہ السّلام پھل کو ہونٹوں اور آنکھوں سےلگاتے ، برکت کی دعا فرماتے ، پھر وہاں موجود چھوٹے بچوں کو وہ پھل عطا فرما دیتے۔[5]

بچوں کے ٹھنڈے برتن میں ہاتھ ڈالتے

فجر کی نماز کےبعد بچے اور بچیاں حضور کی خدمت میں پانی کے برتن لاتے۔ آپ ان میں اپنا مبارک ہاتھ ڈالتے تاکہ بچوں اور ان کے گھر والوں کو برکت حاصل ہو۔سردیوں میں بھی ٹھنڈے پانی کی پرواہ کئے بغیراپنے نرم و نازک مبارک ہاتھ پانی میں ڈبو دیتے۔[6]

حسن و حسین سے محبت

ایک بار حضور اپنے ننھے نواسے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے پیار کرتے ہوئے منہ چوم رہے تھے۔ وہاں موجود ایک شخص نے حیران ہو کر کہا : میرے دس بیٹے ہیں مگر میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو رحم نہیں کرتا اللہ پاکبھی اس پر رحم نہیں فرماتا۔[7]

ایک بار امام حسین رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وہاں سے گزر ہوا ، آپ نے امام حسین کو پکڑنا چاہا تو وہ کھیل کے طور پر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے ، حضور علیہ السّلام دیکھ کر برابر مسکراتے رہےبالآخر امام حسین کو پکڑ لیا۔ ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ان کے سر پر ركھ كر ان کا بوسہ لیا۔اور فرمایا : حُسَيْنٌ مِنِّي وَاَنَا مِنْ حُسَيْنٍ اَحَبَّ اللَّهُ مَنْ اَحَبَّ حُسَيْنًا یعنی حسین مجھ سے اور میں حسین ہوں اللہ  اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے۔[8]

بچیوں کے لئے حضور رحمت

زمانہ جاہلیت میں بہت سے لوگ ایسے تھے جو بیٹی کی ولادت پر غصے سے لال پیلے ہوجاتے ، بہت سوں نے تو زندہ بچیوں کو دفن کردیا۔ ایک شخص نے حضور کو اپنا زمانۂ جاہلیت کا واقعہ سنایا کہ میرے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ جب وہ کچھ بڑی ہوئی تو میں اسے بلاتا تو خوشی خوشی میرے پاس آتی ( میں نے اسےقتل کرنے کا ارادہ کر لیا تو )  میں نے باہر لے جانے کے لئے اسے بلایا تو میرے ساتھ آ گئی۔ گھر سے دور ایک کنویں میں دھکا دے کر اسے گرا دیا وہ مجھے ابا جان ابا جان کہتی رہی۔یہ سن کر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ یہی واقعہ ایک بار پھر سنا تو اتنا روئے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔[9]

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ صرف بچیوں کے قتل سے منع فرمایا بلکہ ان کی پرورش و تربیت پر جنت کی بشارت دی فرمانِ بخشش نشان ہے : جس پر بچیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا  ( یعنی ان پر خرچ کیا ، اچھی تعلیم و تربیت دی اور ان کے معاملے میں تمام دشواریوں پر صبر کیا )  تو یہ بیٹیاں اس کے لئے دوزخ سے بچاؤ کی دیوار بن جائیں گی۔[10]

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر مقام و مرتبہ اور عزت دلوائی۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے گھر میں لڑکی ہو وہ اسے زندہ دفن نہ کرے اور نہ اس کی توہین کرے اور نہ ہی بیٹوں کو اس پر ترجیح دے۔تو اللہ پاک اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔[11]

پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ صرف زبانی ہی نہ فرمایا بلکہ اس پر عمل بھی کرکے دکھایا :

ننھی بچی کو قیمتی ہار پہنا دیا : حضور اپنی ننھی نواسی حضرت اُمامہ  رضی اللہ عنہا سے بے حد پیار فرماتے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہی ان کی پرورش فرمائی۔ ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں ہدیہ پیش کیا گیا جس میں ایک قیمتی ہار بھی تھا آپ علیہ السّلام نے فرمایا : یہ میں اسے دوں گا جو مجھے بہت پیارا ہے۔ پھر آپ نے حضرت اُمامہ  رضی اللہ عنہا کے گلے میں پہنا دیا۔[12]

یتیم بچوں کے ساتھ رحمت عالم کی شفقت

یتیم بچوں پر بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خصوصی شفقت ہوتی تھی آپ علیہ السّلام نے یتیموں اور بے سہاروں کو سہارا دینے کی بھی تعلیم فرمائی : فرمانِ مصطفےٰ پڑھئے : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ایک ساتھ ہوں گے جیسے دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں۔  [13]

شہیدِ جنگِ موتہ حضرت جعفر کے یتیم بچے : جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ جنگِ موتہ میں شہید ہوئے تو حضور ان کے گھر تشریف لے گئے بچوں کو پاس بلا کر سر پر ہاتھ پھیرا ، پیار کیا اور حضرت جعفر کی جدائی کے غم میں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے یہاں تک کہ آپ کی مبارک داڑھی بھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد اللہ جو اس وقت بچے تھے کہتے ہیں : رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اپنے گھر لے گئےاور اپنے ساتھ کھانا کھلایا ، تین دن تک ہم اس بہترین گھر میں رہے۔[14]

شہیدِ جنگِ احد کا یتیم بچہ : غزوہ اُحد میں حضرت عَقرَبہ رضی اللہ عنہ جب شہید ہوگئے۔ ان کے بیٹے بشير بن عقربہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں رو رہا تھا۔ کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے پاس سے گزرے تو آپ کی نگاہِ کرم مجھ پر پڑی تو فرمایا : يَا حبيبُ ما يُبكيكَ اے پیارے کیوں روتے ہو ؟ یتیموں کے والی ، بے سہاروں کے سہارا ، مددگار آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا : کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ میں تمہارا باپ اور عائشہ تمہاری ماں ہو جائے ؟ ( یعنی ہم دونوں تمہیں ماں باپ کا پیار دیں ، محبت و شفقت سے پرورش کریں )  فرماتے ہیں : میں نے عرض کی کیوں نہیں اور یہ سن کر میرے اداس اور غمزدہ دل کو سکون و قرار آ گیا۔[15]

یتیم بچیوں کو سونے کی بالیاں پہنائیں : جلیل القدر صحابی حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ان کی یتیم بچیوں کی شفقت و محبت سے پرورش فرمائی ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان بچیوں کو سونے کی خوبصورت بالیاں پہنائیں جن میں قیمتی موتی لگے ہوئے تھے۔[16]

بچوں کی تربیت کا نبوی انداز

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچوں کی تربیت کا بھی خاص اہتمام فرماتےچنانچہ

سلام میں پہل کی تربیت : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچوں کی تربیت کے لئے بچوں کو سلام کرنے میں پہل کیا کرتے۔[17]  اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اے میرے بیٹے جب تم اپنے گھر جاؤ تو گھر والوں کو سلام کیا کرو یہ تمہارے اور گھر والوں کے لئے باعثِ برکت ہوگا۔[18]

کھانے کی تربیت : حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :  جب میں بچہ تھا حضور کی پرورش میں تھا۔ ایک دن دسترخوان پر اپنے آگے سے کھانے کے بجائے پورے برتن میں میرا ہاتھ گھوم رہا تھا۔ تو نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بسم اللہ پڑھو اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔[19]

شوقِ علم دیکھ کر مزید سیکھنے کی ترغیب : حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے چھوٹی عمر میں قراٰنِ کریم کی 17 سورتیں پڑھ لی تھیں۔ حضور نے ان کا شوقِ علم دیکھ کر عبرانی زبان سیکھنے کا حکم دیا۔تو انہوں نے 15 دن میں وہ سیکھ لی۔ پھر حضور نے سریانی زبانی سیکھنے کا حکم دیا تو وہ بھی 17 دن میں سیکھ لی۔ پھر حضور ان زبانوں کے خطوط آپ رضی اللہ عنہ سے پڑھوایا اور لکھوایا کرتے۔[20]

بچوں سے محبت و شفقت کا نتیجہ

یہ فطری بات ہے کہ انسان جس کے ساتھ جیسا رویہ اختیار کرتا ہے اس کے ساتھ بھی ویسا ہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ جو بچوں سے پیار کرتا ہے تو بچے بھی اس سے پیار کرتے ہیں۔

رسولُ اللہ کا استقبال : جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سفر سے واپس تشریف لاتے تو شوق و محبت میں بچے بھی استقبال کے لئے پہنچ جاتے۔ حضور ان میں سے کسی کو سواری کے آگے اور کسی کو پیچھے بیٹھا لیتے۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ حضور سفر سے واپس تشریف لائے تو استقبال کرنے والوں میں ، میں بھی شامل تھا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے سواری پر آگے سوار کر لیا اور حضرت حسن ، وحُسین میں سے ایک شہزادے آئے تو انہیں پیچھے بیٹھا لیا۔ یوں ہم تینوں ایک سواری پر مدینہ شریف میں داخل ہوئے۔[21]

حضور مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو جب بنونجار کے محلے میں پہنچے تو چھوٹی بچیاں خوشی اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے قصیدہ پڑھنے لگیں :

نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ

يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارِ

یعنی ہم بنو نجار کی لڑکیاں ہیں اور حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے کتنے ہی اچھے ہمسائے ہیں۔

آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔[22] اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں رسولُ اللہ کی سیرت پڑھ کر اسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کرنے اور انہیں اچھا انسان بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] مسلم، ص1086، حدیث: 6701

[2] مسلم، ص974، حدیث: 6026

[3] شرح زرقانی، 2/356 ملتقطاً

[4] دیکھئے:معجم کبیر،للطبرانی، 25/118، حدیث:288

[5] دعوات الكبير، 2/112، حدیث:512

[6] دیکھئے:مسلم، ص977، حدیث:6042

[7] بخاری،4/100، حدیث:5997

[8] دیکھئے:ابن ماجہ، 1/96، حدیث:144

[9] دیکھئے:مسند دارمی، 1/14، حدیث: 2

[10] مسلم، ص1084، حدیث:6693

[11] ابوداؤد، 4/435، حدیث:5146

[12] مسند احمد، 41/232، حدیث:24704

[13] دیکھئے:بخاری، 3/397، حدیث:5304

[14] دیکھئے:طبقات الكبری متمم الصحابہ،2/8

[15] دیکھئے: تاریخ دمشق،10/300

[16] دیکھئے:طبقات ابن سعد، 8/349

[17] دیکھئے:بخاری، 4/170، حدیث: 6247

[18] ترمذی، 4/320، حدیث:2707

[19] دیکھئے:بخاری، 521، حدیث:5376

[20] دیکھئے:تاریخ ابن عساکر، 19/302، 303

[21] دیکھئے: مسلم، ص1014، حدیث:6268

[22] ابن ماجہ، 2/439، حدیث:1899


Share

Articles

Comments


Security Code