رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ اصلاح
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم The Blessed reformation method of Rasoolullah
*مولانا محمد عباس عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء
حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا میں تشریف لائے تو آپ کے نور سے جہان جگمگا اُٹھا ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انسانوں کو کفر وگمراہی کی تاریکی سے نکالا اور ایمان وسُنّت کے نُور سے روشنی بخشی ، گناہوں کے دَلْدَل سے نکال کر نیکیوں کے سیدھے راستے پر چلایا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس دنیا میں تشریف لانے کا عظیم ترین مقصد لوگوں کی اصلاح ہے۔ کفر و گمراہی اور بداعمالی وبد اطواری کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے انسانوں کے دین ، عقیدے اور اعمال واخلاق کی اصلاح فرمانے کے لئے ربِّ کریم نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شمعِ ہدایت بناکر بھیجا۔
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے حکمتِ کاملہ عطا فرمائی اور تبلیغِ دین واصلاحِ انسانیت کے لئے حکمت بھرے انداز اپنانے کا حکم ارشاد فرمایا ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ( اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ) ترجَمۂ کنز الایمان : ” اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔ “ ( پ14 ، النحل : 125 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس ارشادِ ربّانی پر کامل طور پر عمل فرمایا۔ آپ نے عمدہ حکمتِ عملی سے غیر مسلموں کو دینِ اسلام کی دعوت دی ، یونہی مسلمانوں کے عقائد واعمال اور اخلاق کی بھی کمال حکمت وتدبیر سے اصلاح فرماتے رہے۔
چنانچہ مختلف مواقع پر مسلمانوں کی اصلاح کے جو عمدہ وخوبصورت انداز پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اختیار فرمائے ان میں سے کچھ روشن نبوی طریقے یہاں بیان کئے جاتے ہیں۔
( 1 ) علم نہ رکھنے والوں کی شفقت سے اصلاح
اگر کوئی نماز یا دیگر کسی بھی معاملے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی غلطی کربیٹھتا تو کریم و شفیق آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نرمی و شفقت سے اصلاح فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت معاویہ بن حَکَم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا تھا ، اتنے میں کسی کو چھینک آئی ، میں نے نماز میں ہی ” یَرْحَمُکَ اللہ “ کہہ دیا ، لوگ مجھے نظروں سے گھورنے لگے ، میں نے کہا : ” تمہیں کیا ہوا ؟ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو ؟ “ اس پر لوگ اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے مجھے چُپ کروانے لگے ، میں خاموش ہوگیا۔ نماز مکمل ہوگئی تو پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے بُلایا ، حضور پر میرے ماں باپ فدا ! میں نے آپ سے زیادہ اچھے انداز میں سکھانے والا کوئی نہ دیکھا ، آپ نے نہ مجھے مارا نہ بُرا بھلا کہا۔ بلکہ فرمایا : ” یہ جو نماز ہے ، اس میں لوگوں کی گفتگو والی کوئی چیز درست نہیں ہوتی ہے ، نماز تو تسبیح ، تکبیر اور تلاوت کا نام ہے۔ “[1]
( 2 ) افراد کی نشان دہی کئے بغیر اصلاح
افراد کی نشان دہی کئے بغیر تذکرہ فرمانے کا انداز قراٰنِ کریم میں بھی جابجا موجود ہے۔ جیساکہ ارشاد ہوتا ہے : (
وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَآىٕمًاؕ ) ترجَمۂ کنز الایمان : اور ان میں کوئی وہ ہے کہ اگر ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھے تو وہ تجھے پھیر کر نہ دے گا مگر جب تک تو اس کے سر پر کھڑا رہے۔ ( پ3 ، اٰل عمرٰن : 75 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک پیارا انداز یہ تھا کہ لوگوں کی غلطی کی طرف توجہ دلاتے اور اصلاح فرماتے لیکن یہ بیان نہ فرماتے کہ غلطی کس سے واقع ہوئی۔ یہ انداز اختیار کرنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اصلاح بھی ہوجاتی ہے اور متعلقہ فرد کے دل میں کوئی بات بھی نہیں آتی۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کسی شخص کے متعلق کوئی بات پہنچتی تو اُس سے یوں نہ فرماتے تھے کہ ” تم نے ایسا ایسا کیا ! “ بلکہ فرماتے تھے : ” اُن لوگوں کا کیا معاملہ ہے جو ایسا ایسا کہتے ہیں۔ “[2]
( 3 ) غلط فہمی کی اصلاح
بعض اوقات غلطی کی بنیاد غلط فہمی ہوتی ہے ، اور وہ غلط فہمی دور کردی جائے تو آدمی اپنی غلطی کو درست کرلیتا ہے۔ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اس مبارک انداز کو اختیار فرماتے تھے چنانچہ روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو صدقہ لینے پر مامور فرمایا ، جب وہ واپس آئے تو بولے : ” یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے تحفے میں دیا گیا ہے۔ “ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ پاک کی حمدوثنا کے بعد ارشاد فرمایا : ” اُس عامل کا کیا معاملہ ہے جسے ہم بھیجتے ہیں اور وہ آکر کہتا ہے کہ ” یہ تمہارا ہے اور یہ میرا ہے۔ “ تو پھر وہ اپنے باپ اور ماں کے گھر ہی کیوں نہ بیٹھا رہا کہ دیکھتا ، کیا اُسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں ! اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! ایسا شخص قیامت کے دن اُس چیز کو اپنی گردن پر لاد کر لائے گا ، اگر اونٹ ہے تو وہ بلبلاتا ہوگا ، گائے ہے تو ڈکراتی ہوگی اور بکری ہے تو مِنْمِناتی ہوگی۔ “[3]
اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” یعنی یہ نذرانہ نہیں ہے بلکہ رشوت ہے کہ اس کے ذریعے صاحبِ نصاب ، آئندہ اصل زکوٰۃ سے کچھ کم کرانے کی کوشش کریں گے۔ “[4]
( 4 ) الفاظ کی اصلاح
دینِ اسلام میں جہاں دِلی ارادوں کی اہمیت ہے وہیں زبانی جملوں اور لفظوں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کے ارادوں اور کاموں کی درستی کے ساتھ ساتھ لفظوں کی بھی اصلاح فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میرا نفس خبیث ہوگیا ہے بلکہ یہ کہے کہ میرا نفس پریشان ہوگیا ہے۔ “[5]مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” خُبْث ، فسادِ عقیدہ پر بھی بولا جاتا ہے ، کفر ، بے دینی خباثت ہے۔ لہٰذا اپنے لئے یہ لفظ مشترک استعمال نہ کرو کہ اس میں ایک معنی سے اپنے کفر یا بے دینی کا اقرار ہے۔ “[6]
یونہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں کچھ یہودی آئے اور انہوں نے کہا : ” اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ یعنی تم پر موت ہو۔ “ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جواب دیا : ” تم پر ہو۔ “ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اُن یہودیوں کو جواب دیتے ہوئے کہا : ” عَلَيْكُمْ ، وَلَعَنَكُمُ اللَّهُ ، وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ تمہارے اوپر موت ہو ، اللہ پاک تم پر لعنت اور تم پر غضب فرمائے۔ “ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ” عائشہ ! جانے دو اور نرمی اختیار کرو ، بداخلاقی اور بدگوئی سے بچو۔ “ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : ” جو انہوں نے کہا وہ حضور نے سماعت نہیں فرمایا ؟ “ ارشاد فرمایا : ’’کیا تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ۔میں نے وہی بات ان پر لوٹا دی تھی پس ان کے بارے میں میرے الفاظ شرفِ قبولیّت حاصل کر گئے اور میرے بارے میں ان کے الفاظ قبول نہیں ہوئے۔ “[7]
( 5 ) چُھپے لفظوں میں اصلاح
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت میں یہ حکمت بھرا انداز بھی ملتا ہے کہ ہر جگہ صریح لفظوں سے بات نہیں کی جاتی ہے ، بعض اوقات چھپے لفظوں سے بات کرنے میں زیادہ اثر ہوتا ہے ، چنانچہ حضرت حکیم بن حِزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مانگا ، آپ نے عطا فرمایا ، میں نے پھر مانگا آپ نے مجھے اور عطا فرمایا ، میں نے پھر مانگا ، آپ نے مجھے اور عطا فرمایا ، پھر مجھ سے فرمایا : ” اے حکیم ! یہ مال سبز باغ ہے ، ظاہر میں بڑی میٹھی چیز ہے ، جو اسے دِلی بے نیازی سے لے گا اُسے اِس مال میں برکت ہوگی اور جو اسے نفسانی لالچ سے لے گا اسے برکت نہ ہوگی اور وہ اس کی طرح ہوگا جو کھانا کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ “ ( اس حکمت بھری نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ ) حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے عرض کی : ” یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! میں دنیا سے جانے تک آپ کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔ “ چنانچہ اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کو مال دینا چاہتے تو وہ انکار کردیتے تھے۔ پھر جب اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اُنہیں مال دینا چاہا تو بھی انہوں نے انکار کردیا۔[8]
( 6 ) دور اندیشی کے پیشِ نظر اصلاح
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حکمت کا سرچشمہ ہیں ، جیساکہ ارشاد فرماتے ہیں : ” اَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ یعنی میں حکمت کا گھر ہوں۔ “[9] لہٰذا رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر فرمان اور عمل میں حکمتیں ہیں ، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دُور اندیشی کے پیشِ نظر بھی اصلاح فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، حضرتِ اَنْجَشہ رضی اللہ عنہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایک حُدِی خواں ( یعنی اونٹوں کے لئے نغمہ گانے والے ) تھے اور وہ خوش آواز تھے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن سے فرمایا : ” اَنْجَشہ ! چھوڑ دو ، کچی شیشیاں نہ توڑو۔ “ [10]
مفسرِ شہیرحکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں : یعنی میرے ساتھ سفر میں عورتیں بھی ہیں جن کے دل کچی شیشی کی طرح کمزور ہیں خوش آوازی ان میں بہت جلد اثر کرتی ہے اور وہ لوگوں کے گانے سے گناہ کی طرف مائل ہوسکتی ہیں اس لیے اپنا گانا بند کردو۔یہ فرمانِ عالی تاقیامت عورتوں کے متعلق ہے ورنہ صحابیات کے متعلق فسق وفجور کا وہم بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مقصد یہ ہے کہ مرد عورتوں کو گانا نہ سنائے اس طرح عورتیں مردوں کو گانا نہ سنائیں کہ اس سے عشق و بدمعاشی پیدا ہوتی ہے۔حضور کا ہر فرمان حق ہے عورت کا دل کچی شیشی کی طرح کمزور اور جلد اثر لینے والا ہوتا ہے اس لیے اسلام نے گانا بجانا حرام کیا۔[11]
( 7 ) لوگوں کے مرتبے کے مطابق اصلاح
لوگوں کے ساتھ ان کے مقام ومرتبہ کے مطابق پیش آنا چاہئے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ ” اَنْزِلُوْا النَّاسَ مَنَازِلَہُمْ یعنی لوگوں کو ان کے درجوں میں رکھو۔ “[12]سب لوگوں کے ساتھ ایک ہی انداز نہیں رکھا جاتا ، یہاں تک کہ حدود کے علاوہ معاملات میں عزت داروں کو معافی دینے کا ارشاد فرمایا گیا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے : ” عزت داروں کی لغزشیں معاف کردو سوائے حدود کے۔ “[13]شرعی مسئلہ ہے کہ سادات وعلما وجاہت وعزت والے ہوں ، ان کی تعزیر ادنیٰ درجہ کی ہوگی کہ قاضی ان سے اتنا ہی کہہ دے کہ ” آپ نے ایسا کیا ؟ “ ایسوں کے لئے اتنا کہہ دینا ہی باز آنے کے لئے کافی ہے۔[14] ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کے مرتبے کے مطابق اصلاح فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں اپنے غلام کی پٹائی کررہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ ” ابو مسعود ! یاد رکھو اللہ تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنے تم اِس پر ہو۔ “ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تھے۔ میں نے عرض کی : ” یارسول اللہ ! یہ ا للہ پاک کے لئے آزاد ہے۔ “ پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ” اگر تم یہ نہ کرتے تو تم کو آگ جلاتی۔ “ یا فرمایا : ” آگ پہنچتی۔ “[15]
( 8 ) غلطی کی نشان دہی فرماکر اصلاح
آدمی غلطی سے تبھی رجوع اور پرہیز کرتا ہے جب اُسے غلطی کا علم ہو۔ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک انداز تھا کہ آپ غلطی کی نشان دہی فرماکر اصلاح فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ایک چھوٹے قد والی عورت آئی۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما تھے ، میں نے آپ کے سامنے انگوٹھے سے اشارہ کیا ( کہ یہ چھوٹے قد والی ہے ) ۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ” تم نے اس کی غیبت کی۔ “[16]
( 9 ) عقیدے کے متعلق غلطیوں کی اصلاح
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کی اعتقادی وفکری غلطیوں کی بھی اصلاح فرماتے تھے۔ جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں لوگ کہتے تھے کہ سورج اور چاند کو تب گہن لگتا ہے جب کسی عظیم ہستی کی مَوت ہوتی ہے۔[17] چنانچہ عہدِ رسالت میں جس دن شہزادۂ نبی حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ دنیا سے رخصت ہوئے اور اُسی دن سورج کو گہن لگ گیا تو لوگ کہنے لگے : ” ابراہیم کی وفات سے سورج کو گہن لگ گیا۔ “ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ” سورج اور چاند کو کسی کی زندگی اور موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا ، سورج اور چاند تو اللہ پاک کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم گہن دیکھو تو نماز پڑھو اور بارگاہِ الٰہی میں دُعا کرو۔ “[18]
اے عاشقانِ رسول ! ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تمام حیاتِ مبارکہ ہی اصلاح وہدایت کا نور ہے ، آپ اپنی مبارک ظاہری زندگی میں لوگوں کے دین ومذہب ، عقائد وخیالات اور اعمال واخلاق کی اصلاح فرماتے رہے ، سیرتِ مبارکہ میں ہدایتِ انسانیت اور اصلاحِ امت کے بہت رنگارنگ پھول اور خوش نما گلستان مِلتے ہیں ، یہاں ان میں سے گنتی کے چند ہی پھول پیش کئے گئے ہیں۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں سیرتِ مصطفےٰ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ تراجم کتب المدینۃ العلمیہ
[1] مسلم ، ص215 ، حدیث : 1199
[2] اخلاق النبی وآدابہ لابی الشیخ ، ص41 ، حدیث : 152
[3] بخاری ، 4 / 465 ، حدیث : 7174
[4] مراٰۃ المناجیح ، 3 / 13
[5] بخاری ، 4 / 150 ، حدیث : 6179
[6] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 414
[7] بخاری ، 4 / 108 ، حدیث : 6030- مسلم ، ص920 ، 919 ، حدیث : 5658
[8] بخاری ، 1 / 497 ، حدیث : 1472
[9] ترمذی ، 5 / 402 ، حدیث : 3744
[10] بخاری ، 4 / 158 ، حدیث : 6211
[11] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 443ملتقطاً
[12] ابو داؤد ، 4 / 343 ، حدیث : 4842
[13] ابو داود ، 4 / 178 ، حدیث : 4375
[14] بہار شریعت ، حصہ 9 ، 2 / 404 ، ملتقطاً
[15] مسلم ، ص699 ، حدیث : 4308
[16] شعب الایمان ، 5 / 303 ، حدیث : 6730
[17] نسائی ، ص257 ، حدیث : 1487
[18] بخاری ، 1 / 357 ، حدیث : 1043
Comments