رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی معاشی اصلاحات

تاجروں کے لئے

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی معاشی اصلاحات

 صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   Economic reforms of Rasoolullah

*مولانا عبدالعزیز عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء


معیشت انسانوں کی بنیادی ضرورت ہے جس کی فراہمی دیگر ضروریات کی طرح اللہ نے اپنے ہی ذمۂ کرم پر رکھی[1]اور مختلف وسائل سے ان کی معیشت کا بندوبست فرمایا۔

جہاں ہر ملک و قوم معیشت کی بہتری کے لئے مختلف تدابیر و منصوبے بناتی ہے ، وہیں اللہ کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہلِ اسلام کو لین دین ، کاروبار و ملازمت کے ایسے اصول عطا کئے جو اخلاقیات سنوارنے کے ضامن بھی ہیں اور معیشت کو زوال و نقصان سے بچانے اور اوجِ ثریا تک پہنچانے کے لئے کافی بھی ہیں۔

معیشت کمزور کرنے والے عوامل

 ( 1 )  سود : حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کی بنیادوں پر قائم سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لئے سود کی سخت تردید فرمائی اور سود کا لین دین کرنے والوں کو ملعون قرار دیا[2]  کیونکہ سود پر قائم سرمایہ دارانہ نظام نے بہت سے خاندانوں ہی کو نہیں بلکہ قوموں اور ملکوں کو معاشی اپاہج کردیا ہے۔

 ( 2 )  رشوت : آپ نے رشوت کے لین دین کا انجام جہنم کی آگ میں جلنا بتایا ،  [3]ناحق کسی سے کام کروانے یا کسی کا کام کرنے یا بے قصور کو قصور وار یا قصور وار کو بے قصور ٹھہرانے وغیرہ کیلئے کم یا زیادہ رقم یا مادی و غیر مادی معاوضے کی لین دین کا نقصان چھوٹے بڑے پیمانے پر حیرت انگیز ہوتا ہے ، اداروں اور ملکوں کو بڑے دھچکے لگتے ، مالی غبن ہوتے ہیں اور معیشت پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔

 ( 3 ) دھوکا : ملکی و غیر ملکی سطح پر چھوٹے بڑے کاروباری معاملات ، بھروسے اور اعتبار ہی کے سہارے ترقی پزیر ہوتے ہیں ، اور دھوکے کی وجہ سے یہ اعتبار ختم ہوجاتا ، کاروبار کی جڑیں کھوکھلی ہوتیں اور سرد بازاری جنم لیتی ہے ، اسی لئے زبردست اور دور اندیش معیشت دان کی حیثیت سے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ صرف دھوکا باز کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرمایا جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔[4]بلکہ دھوکے کی مختلف صورتوں پر ممانعت کے پہرے بٹھائے مثلاً ملاوٹ کرنے والے کے لئے سخت الفاظ بیان فرمائے۔[5]  * جھوٹ بولنے والے کو خائن قرار دیا۔[6]* کاروباری معاملات میں قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو جھانسا دینے کا خاتمہ کرنے کیلئے کاروبار میں غیر ضروری طور پر زیادہ قسمیں کھانے کو بے برکتی قرار دیا۔[7]  * سامانِ تجارت کی خامیوں اور خرابیوں پر پردہ ڈال کر خریدار کو دھوکا دینے کا انجام اللہ پاک کی ناراضی اور فرشتوں کی لعنت کا موجب بتایا۔[8]* ناپ تول میں ڈنڈی مار کر دھوکا دینے والوں کا دنیاوی انجامِ کار قحط ، معاشی تنگی اور حکمرانوں کے مظالم کا شکار ہونا بتایا۔[9]  اور ساتھ ہی بیچنے والے کو تلقین بھی کی جس کا حاصل یہ کہ بیوپار انصاف سے کچھ زائد سامان تول کر خریدار کو دیا کرے۔  [10]* جانور کے سودے سے پہلے چند دن تک اس کا دودھ نہ دوہ کر تھنوں میں روکنے سے منع فرمایا تاکہ تھنوں میں کئی دنوں کے جمع شدہ دودھ سے وہ دھوکے میں نہ رہے۔[11]

 ( 4 ) فضول خرچی : خوراک ، لباس ، سواری اور تعلیم وغیرہ پر مناسب اخراجات یقیناً ضروریاتِ زندگی میں سے ہیں مگر ضروریات سے ہٹ کر سہولیات وغیرہ پر چھوٹے بڑے فضول خرچوں کی بات کی جائے تو پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس پر قَدغَن لگائی ہے۔آپ نے یقین دہانی کروائی کہ میانہ روی کرنے والا محتاج نہیں ہوگا۔[12]اور اخراجات میں میانہ روی کو آدھی معیشت قرار دیا۔  [13]  جوکہ اقتصادیات میں آپ کی مہارت و بصارت کا ثبوت ہے کیونکہ مال بچا بچا کر سرمائے میں لگانا معاشی قوت و اضافے کے اہم اصولوں میں سے ہے اور فضول خرچی اس میں بڑی رکاوٹ۔

 ( 5 ) ذخیرہ اندوزی : خوراک چونکہ بنیادی ضرورت ہے اس لئے زیادہ تر اسی کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے اور لوگ زیادہ مجبور بھی اسی کیلئے ہوتے ہیں ، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس غیراخلاقی حرکت کا نتیجہ جذام و مفلسی کا شکار ہونا بتایا۔[14] ذخیرہ اندوزی سے روکنا بھی آپ کی بہترین معیشت دانی کا ثبوت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ذخیرہ اندوز بظاہر تو خوشحال ہوجاتے ہیں مگر قومی معیشت کا بیڑا غرق ہوجاتا ہے جبکہ بہترین معیشت ، ملکی و قومی خوشحالی سے عبارت ہے۔

معیشت کو مضبوط کرنے والے عوامل

اہلِ اسلام کی معیشت پہاڑ کی طرح مضبوط ہو ، اس سے اسلام کو فائدہ پہنچے ، مسلمانوں کو مالی طور پر زیر نہ کیا جاسکے ، یہ غیروں کے محتاج نہ ہوں غیر ان کے محتاج ہوں اس کے لئے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معیشت و آمدن میں اضافے ، مال کی منصفانہ تقسیم اور قومی خوشحالی وغیرہ کے جو ذرائع ہیں ان کی دلکشی واضح کی تاکہ مسلمان ان کی طرف لپکیں مثلاً * معیشت کے لئے تجارت میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تجارت کی افادیت کو یوں واضح فرمایا ، رزق کے دس میں سے نو حصے فقط تجارت میں ہیں۔[15] ظاہر ہے  کہ تجارت وسیع ہونے سے روزگار کے ذرائع بڑھتے ، نفع پھلتا پھولتا اور اجتماعی طور پر مالی خوشحالی آتی ہے * یونہی زکوٰۃ و صدقات بروقت مستحق افراد کو دینے کی مختلف مواقع پر تاکید فرمائی۔[16]  بلکہ اس کے مالی فائدے بھی بتائے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے سے مال کا شر دور ہوگا۔[17] اور صدقہ مال کو بڑھاتا ہے۔[18] سُبْحٰنَ اللہ ! اللہ کے رسول اقتصادیات میں کتنے ماہر تھے کہ مسلمانوں کو حسنِ معیشت کا نہایت آسان اصول بتا دیا ، واقعی اگرتمام مالدار اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کے مطابق سالانہ اپنی زکوٰۃ حقداروں کو دیں تو قوم بہت جلد مفلسی کے شکنجے سے آزاد ہوکر خوشحال ہوجائے۔

 * یونہی آپ نے زراعت و شجرکاری کی طرف جو دلچسپی دلائی اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی کی شجر کاری یا زراعت سے انسان یا حیوان کو فائدہ پہنچے تو یہ اس کیلئے صدقہ ہے۔[19]  آپ نے زمینداروں کو اپنی زمین میں خود کاشتکاری کرنے یا اس کے لئے کسی مسلمان بھائی کو  ( کرائے پر ) دینے کا فرمایا[20]  بلکہ عملی طور پر خود بھی یہی کیا۔  [21]  غور کیجئے کہ معیشت میں زراعت و شجرکاری کی اہمیت جو آج سبھی جانتے ہیں کہ ان سے اناج غلہ سبزیاں اور پھل حاصل ہوتے ہیں ، انسان ، چرند ، پرند کو فائدہ ملتا ہے ، زمین سونا اگلتی ہے اور بہت سی معاشی راہیں کھلتی ہیں ، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صدیوں پہلے ہی اہلِ اسلام کو اس طرف راغب فرمایا تھا۔

وراثت : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وراثت بیٹوں ، بیٹیوں ، ماں اور بیوی اور دیگر رشتہ داروں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ، تقسیمِ میراث میں دورِ جاہلیت کے دستور کے خلاف شریعتِ محمدی کے اس انقلابی اقدام میں موروثی مال کی تقسیم کا دائرہ پہلے سے وسیع تر کردیا گیا ، عورتیں بھی وراثت کی حقدار بنائی گئیں جو کہ حسنِ معیشت کے لئے مفید ہے کیونکہ مال کی زیادہ ہاتھوں میں رسائی ، معیشت کی بہتری کی ضامن ہے۔

 شراکت داری : خوبیِ معیشت میں شراکت کی بھی بڑی اہمیت ہے کیونکہ معاشرے میں کئی لوگ سرمایہ دار تو ہوتے ہیں مگر کام کا وقت ، صلاحیت یا ہمت نہیں ہوتی جبکہ بہت سوں کے پاس یہ سب ہوتا ہے مگر سرمایہ نہیں ہوتا ، شراکت داری ان سب کو ایک دوسرے کا بازو بناتی ہے اور شاہینِ معیشت پرواز کی بلندی چھونے لگتا ہے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد بیک وقت کثیر پردیسی افراد کا مدینے میں مقیم ہوجانا وہاں کی معیشت کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا ، مگر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جیسے زبردست معیشت دان نے بروقت عقدِ مواخات  ( جو درحقیقت شراکت ہی تھی )  کے ذریعے اس چیلنج کو بآسانی پورا کیا۔آپ نے شراکت داری کو فروغ دینے کے لئے ایماندار شراکت داروں کو اللہ پاک کا ساتھ نصیب ہونے کی خوشخبری بھی سنائی۔[22]

اچھا ہنر سکھائیے : حسنِ معیشت میں محنت کشی ، ہنرمندی اور دستکاری کی اپنی ہی اہمیت ہے ، جس قوم میں محنت کش ، ہنرمند و دستکار لوگ ہوتے ہیں وہ معاشی پسماندگی سے محفوظ رہتی ہے ، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اقتصادی نگاہوں سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہنرمندی و محنت کشی میں اہلِ اسلام کی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے ایک ہنرمند و زرہ ساز نبی حضرت داؤد کا ذکر کرتے ہوئے ہاتھ کی کمائی کو بہترین رزق قرار دیا۔[23]  جس سے ہنر و دستکاری کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت و فرامین کے سورج کی صرف چند کرنوں کا یہاں بہت مختصر ذکر کیا گیا ہے جو آپ کی معاشیاتی مہارت کا پتا بھی دیتی ہیں اور Direct یا in direct معیشت و اقتصاد کی تاریک راہوں کو جگمگانے کے لئے بھی کافی ہیں ، اگر انہیں سنجیدگی سے اپنایا جائے تو تھوڑی مدّت میں معیشت کا بیڑا ترقی کی جانب گامزن ہوجائے۔

اللہ پاک ہمیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے گہری محبت اور آپ کی سیرت اپنانے کی سعادت نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] پ 25 ، الزخرف : 32

[2] مسلم ، ص663 ، حدیث : 4093

[3] معجم اوسط ، 1 / 550 ، حدیث : 2026

[4] مسلم ، ص64 ، حدیث : 284

[5] مسلم ، ص64 ، حدیث : 284 ماخوذاً

[6] ابوداؤد ، 4 / 381 ، حدیث : 4971ماخوذاً

[7] مسلم ، ص668 ، حدیث : 4126 ماخوذاً

[8] ابن ماجہ ، 3 / 59 ، حدیث : 2247 ماخوذاً

[9] ابن ماجہ ، 4 / 368 ، حدیث : 4019 ماخوذاً

[10] ابن ماجہ ، 3 / 47 ، حدیث : 2222 ماخوذاً

[11] بخاری ، 2 / 32 ، حدیث : 2148 ماخوذاً

[12] مسند امام احمد ، 2 / 157 ، حدیث : 4269ماخوذاً

[13] شعب الايمان ، 5 / 254 ، حديث : 6568 ماخوذاً

[14] ابن ماجہ ، 3 / 15 ، حدیث : 2155

[15] موسوعۃ امام ابن ابی الدنيا ، 7 / 451 ، حدیث : 213ملخصا

[16] بخاری ، 1 / 471 ، حدیث : 1395

[17] معجم اوسط ، 1 / 431 ، حدیث : 1579 ماخوذاً

[18] الترغيب و الترهيب للاصفهانى ، ص364 ، حديث : 624 ماخوذاً

[19] بخاری ، 2 / 85 ، حدیث : 2320 ماخوذا

[20] بخاری ، 2 / 91 ، حدیث : 2340 ماخوذاً

[21] مسلم ، ص645 ، حدیث : 3966 ماخوذا

[22] ابو داؤد ، 3 / 350 ، حدیث : 3383 ماخوذاً

[23] بخاری ، 2 / 11 ، حدیث : 2072ماخوذاً


Share

Articles

Comments


Security Code