صحبتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکتیں

فریاد

صحبتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکتیں

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء

کسی بھی معاشرے (Society) کی ترقی و اصلاح کیلئے اس کے افراد کی درست تربیت)  Training) بے حد ضروری ہے کیونکہ فرد سے معاشرہ بنتا ہے۔ جس معاشرے میں فرد کی تربیت صحیح انداز سے نہ ہو تو معاشرے کی اخلاقی و معاشی ہر اعتبار سے مجموعی کیفیت بدحال رہتی ہے۔ حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عرب کے کفر و شرک اور بداخلاقی میں مبتلا افراد کی درست تربیت فرمائی تو اللہ کے کرم سے بڑے بڑے عظیم الشان اور انمول ہیرے نکھر کر سامنے آئے۔ آپ ہر مناسب موقع پر عام لوگوں اور صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم کی تربیت فرماتے رہتے تھے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لوگوں کے مزاج و عادات اور نفسیات کی شناخت میں کمال حاصل تھا۔ ہر ایک سے اس کے مرتبے کے لائق سلوک فرماتے اور اس طریقے سے سامنے والے کی تربیت فرماتے کہ بات اس کے دل میں اُتَر جاتی۔ اس مضمون میں ایسے ہی چند واقعات لکھے گئے ہیں کہ جن میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اندازِ تربیت اور پھر تربیتِ نبوی کے ثمرات و نتائج کا بیان ہے:

حکمت و دانائی بھرا اندازِ تربیت: ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طریقۂ تربیت میں حکمت و دانائی تھی، اگر بعض لوگوں کی کچھ کوتاہیوں کی خبر آپ تک پہنچتی تو اکثر اجتماعی طور پر اس غلط طرزِ فکر اور نامناسب عمل کی اصلاح فرمادیتے،اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ دوسروں کو بھی راہنمائی مل جاتی۔ جیساکہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب کسی کی بات پہنچتی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ نہ فرماتے کہ فلاں کا کیا معاملہ ہے کہ جو یہ کہتا ہے بلکہ فرماتے: ان لوگوں کا کیا حال ہے جو ایسی بات کہتے ہیں۔[1]

رسولُ اللہ کی عملی تبلیغ و تربیت : ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو ان کی وہ انگوٹھی اُتار کر پھینک دی اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ میں دوزخ کا انگارا لینا چاہتا ہے؟ سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس تربیت کا اُن صحابی پر ایسا اثر ہوا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تشریف لے جانے کے بعد ان سے کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی لے لو اس سے کوئی اور نفع اٹھالو، لیکن انہوں نے کہا: نہیں! خدا کی قسم! جس انگوٹھی کو اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھینک ديا میں اسے کبھی نہيں اٹھاؤں گا۔[2]

اگر وہ صحابیِ رسول چاہتے تو انگوٹھی فروخت کرکے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھالیتے یا کسی کو تحفے میں دے دیتے یا پھر اُسے دے دیتے جس کے لئے اسے پہننا جائز ہے یعنی اپنے گھر کی کسی عورت کو اس کا مالک بنا دیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے پھینک دیا تھا۔

حضور نبیِّ کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سونے کی انگوٹھی کو اتار کر پھینک دینا آپ کی عملی تبلیغ کا ایک نمونہ ہے چنانچہ حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ ہے عملی تبلیغ کہ بُرائی کو بَہ جَبرروک دیا۔(آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) فرماتے ہیں: جو کوئی بُرائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے، نہ کرسکے تو زبان سے روکے، یہ بھی نہ ہوسکے تو دل سے بُرا جانے۔[3]

جُھوٹ سے بچنے کی برکت: ایک مرتبہ ایک شخص نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہنے لگا:میں آپ پر ایمان لانا چاہتا ہوں مگر مجھے شراب نوشی، بدکاری، چوری اور جُھوٹ سے مَحبَّت ہے۔ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ آپ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں، مجھ میں ان سب چیزوں کو چھوڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ اگرآپ مجھے ان میں سے کسی ایک سےمنع فرمادیں تو میں اسلام قبول کرلوں گا۔ نبیِّ مُکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:تم جھوٹ بولنا چھوڑدو! اس نے یہ بات قبول کرلی اور مسلمان ہوگیا۔ دربارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جانے کے بعد جب اسے لوگوں نے شراب پیش کی تو اس نے کہا: میں شراب پیوں اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھ سے شراب پینے کے متعلق پوچھ لیں تو اگر میں جُھوٹ بولوں گا تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کئے ہوئے وعدے کو توڑنے والا ہوجاؤں گا اور اگر اقرار کیا تو مجھ پرحد (شرعی سزا) قائم کی جائے گی، لہٰذا اس نے شراب نوشی چھوڑدی، اسی طرح بَدکاری اور چوری کا معاملہ دَر پیش ہوتے وقت بھی اسے یہی خیال آیا،چنانچہ وہ ان بُرائیوں سے باز رہا۔ جب بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اس کی دوبارہ حاضری ہوئی تو کہنے لگا:آپ نے بہت اچّھا کام کیا،آپ نے مجھے جُھوٹ بولنے سے روکا تو مجھ پر دیگر گناہوں کے دروازے بھی بند ہوگئے اور یوں اس شخص نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرلی۔[4]

 سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فِراسَت مرحبا! آپ نے اپنی مبارک عَقْل کے نور سے پہچان لیا کہ یہ شخص جُھوٹ چھوڑنے کے سبب دیگر گناہوں سے بھی بچ جائے گا اسی لئے اسے جُھوٹ ترک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور پھر واقعی وہ تمام گناہوں سے تائب ہوگیا۔

کھاتے وقت اِصلاح فرمائی: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تربیت کا ایک اور واقعہ ملاحظہ کیجئے کہ آپ نے کس حکمتِ عملی اور کتنے پیارے انداز میں غلطی کی اِصلاح فرمائی، چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا اُمِّ سلمہ  رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت عُمَر بن ابو سَلَمَہ   رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پرورش میں تھا،میرا ہاتھ (کھانا کھاتے ہوئے) پیالے میں اِدھر اُدھر گھومتا تھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: يَا غُلامُ سَمِّ اللهَ وَكُلْ بيَمِينكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ یعنی بیٹا! اللہ کا نام لو (بسم اللہ پڑھو)، سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ۔(حضرت عمر بن ابو سلمہ   رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:) اس کے بعد میں ہمیشہ اسی طریقے سے کھانا کھاتا رہا۔ [5]قربان جائیے! رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اندازِ تربیت پر! کس پیار بھرے اور مثبت (Positive) انداز میں اپنی گفتگو شروع فرمائی، آپ نے پہلے پہل کھانے کے آداب بیان فرمائے تاکہ انہیں یہ محسوس نہ ہو کہ مجھے ٹوکا جارہا ہے اور آخر میں یہ ادب بھی بتادیا کہ برتن میں اپنے قریب سے کھانا چاہئے اور غلطی کی اِصلاح اس انداز سے فرمادی کہ گویا آخری بات بھی دوسری ہدایتوں کی طرح ایک ہدایت ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم صحیح انداز سے تربیت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا مُطالعہ کرنا ہوگا کہ کس طرح آپ لوگوں کے مِزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھ کر حکمت ِعملی کے ساتھ لوگوں کی تربیت فرماتے تھے۔تفسیرِ عزیزی میں ہے: عقل کے 100 حصّے ہیں جس میں سے 99 حصّے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا ہوئے اور جو شخص نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عَقْل معلوم کرنا چاہے، اسے چاہئے کہ سیرت کی کتابوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرے۔[6]

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ آپ عملی زندگی کے خواہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں اگر اپنی اور اپنے متعلقین کی صحیح انداز سے تربیت کرنا چاہتے ہیں تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا مطالعہ کیجئے، اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس طرح لوگوں کے مزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھ کر حکمتِ عملی کے ساتھ لوگوں کی تربیت فرماتےتھے۔ معاشرے کے افراد کی تربیت میں اپنا حصّہ ملائیے اور اس کے لئے حکمتِ عملی اور انفرادی کوشش کو اپنائیے۔

اللہ پاک ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ شریعت کےمطابق حکمتِ عملی اپناتے ہوئے دوسروں کی اِصلاح کی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



[1] ابو داؤد،4/328،حدیث:4788

[2] مسلم،ص891،حدیث:2090

[3] مراٰۃ المناجیح، 6 / 129

[4] تفسیرِ کبیر،پ11،التوبۃ،تحت الآیۃ:119، 6/167

[5] بخاری، 3/521، حدیث:5376

[6] تفسیر عزیزی مترجم،3/61۔


Share